Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 67
وَّ اِذًا لَّاٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ لَّدُنَّاۤ اَجْرًا عَظِیْمًاۙ
وَّاِذًا : اور اس صورت میں لَّاٰتَيْنٰھُمْ : ہم انہیں دیتے مِّنْ لَّدُنَّآ : اپنے پاس سے اَجْرًا : اجر عَظِيْمًا : بڑا عظیم
اور اس صورت میں ہم ان کو ضرور دیتے اپنی طرف سے بہت بڑا اجر بھی،
160 اجر عظیم کا اہم مصداق سے مقصود و مراد ؟ : سو اس سے یہاں پر جنت مراد ہے۔ (ابن کثیر (رح) محاسن التاویل وغیرہ ) ۔ جس کی نعمتوں کے بارے میں صحیح حدیث میں فرمایا گیا کہ وہ نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی کان نے سنیں، اور نہ کسی دل پر ان کا گزر ہی ہوا۔ " مََا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلا خَطَرَ عَلٰی قَلْب بَشَرٍ " سو جنت کی نعیم مقیم سے سرفرازی سب سے بڑا انعام اور حقیقی کامیابی ہے، جس سے اللہ پاک اپنے خاص بندوں کو اپنے فضل و کرم سے نوازتا اور سرفراز فرماتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اسی لئے قرآن حکیم میں اس کو حصر کے ساتھ " الفَوزُ الْعَظِیْم " اور " الَفَوزُ الْکَبِیْر " وغیرہ الفاظ سے ذکر فرمایا گیا ہے۔ یعنی سب سے بڑی کامیابی کہ اس کے سوا اور کوئی کامیابی حقیقی کامیابی ہے ہی نہیں۔ بہر کیف ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ ان باتوں کو اپناتے اور ان پر عمل پیرا ہوتے تو یہ خود انہی کے حق میں بہتر ہوتا کہ اس سے ان کو ایمان و یقین میں قوت و پختگی بھی ملتی۔ یہ ضعف و اضطراب سے بھی دور اور محفوظ ہوتے۔ ان کو راہ حق و ہدایت میں استقامت بھی نصیب ہوتی۔ یہاں پر احکام خداوندی کو مواعظ کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا کیونکہ ان میں وعد اور وعید کے دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔ (محاسن التاویل وغیرہ) اور ان پر عمل پیرا ہونے میں خود بندوں ہی کا بھلا ہے۔ دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی ۔ وباللہ التوفیق -
Top