Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 72
وَ اِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ١ۚ فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَكُنْ مَّعَهُمْ شَهِیْدًا
وَاِنَّ : اور بیشک مِنْكُمْ : تم میں لَمَنْ : وہ ہے جو لَّيُبَطِّئَنَّ : ضرور دیر لگا دے گا فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَتْكُمْ : تمہیں پہنچے مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالَ : کہے قَدْ اَنْعَمَ : بیشک انعام کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيَّ : مجھ پر اِذْ : جب لَمْ اَكُنْ : میں نہ تھا مَّعَھُمْ : ان کے ساتھ شَهِيْدًا : حاضر۔ موجود
اور تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو جی چراتا ہے (جہاد و قتال سے) پھر اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچ جائے (شکست وغیرہ کی) تو وہ کہتا ہے کہ اللہ نے مجھ پر بڑا فضل کیا، کہ میں ان لوگوں کیساتھ موجود نہ تھا3
168 منافقوں کے منافقانہ رویے کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو جی چراتے اور [ جہاد و قتال سے ] پیچھے رہتے ہیں۔ پھر اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچ جائے تو ایسا شخص کہتا ہے کہ اللہ نے مجھ پر بڑا فضل وکرم کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ موجود نہیں تھا۔ سو کار خیر میں پیچھے رہنا اور اس پر اپنی ہوشیاری ظاہر کرنا، اور اپنی چال پر خوشیاں منانا، جہاد فی سبیل اللہ اور معرکہ حق و باطل سے پیچھے رہنا اور اس محرومی پر افسوس کرنے کی بجائے اس پر خوش ہونا، اور اس کو اپنی ہوشیاری اور چالاکی سمجھنا منافقوں کا طریقہ و وطیرہ ہے نہ کہ اہل ایمان و یقین کا۔ اور کارخیر سے محرومی پر افسوس کرنے کی بجائے اس پر خوش ہونا منافقت کا ثبوت اور اس کی علامت ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو جہاد کی سعادت میں آگے بڑھنے کی بجائے خود بھی پیچھے رہتے ہیں اور دوسروں کی بھی ہمت شکنی کر کے ان کو پیچھے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ان کا حال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو کسی مہم میں کوئی گزند پہنچ جائے تو یہ خوش ہوتے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل سے ہمیں اس مہم میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہونے سے بچا لیا ہے۔ اور اگر ان کو کوئی کامیابی نصیب ہوتی ہے تو یہ لوگ حاسدانہ اور حسرت بھرے انداز میں کہتے ہیں کہ کاش کہ ہم بھی اس میں شریک وشامل ہوتے تو ہم بھی خوب مال غنیمت کماتے۔ سو دولت ایمان و یقین سے محرومی کے بعد ان کے سامنے دنیائے فانی کے فوائد و منافع ہی ہیں اور بس ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top