Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 98
اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَةً وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ سَبِیْلًاۙ
اِلَّا : مگر الْمُسْتَضْعَفِيْنَ : بےبس مِنَ : سے الرِّجَالِ : مرد (جمع) وَالنِّسَآءِ : اور عورتیں وَالْوِلْدَانِ : اور بچے لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : نہیں کرسکتے حِيْلَةً : کوئی تدبیر وَّلَا : اور نہ يَهْتَدُوْنَ : پاتے ہیں سَبِيْلًا : کوئی راستہ
بچوں کے، جو نہ تو کوئی تدبیر کرسکتے ہیں، اور نہ کوئی راہ پاسکتے ہیں (کہ وہ اس سے مستثنیٰ ہیں)
260 ضعیفوں اور کمزوروں کی رعایت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بجز ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی جو کوئی تدبیر نہیں کرسکتے۔ یعنی ایسے جو کمزور اور بےبس تھے کہ وہ کوئی تدبیر نہیں کرسکتے تھے کفار اور دارالکفر سے نکل بھاگنے کی، اپنی بیماری یا معذوری کی وجہ سے۔ یا اسباب و وسائل کے فقدان کے باعث۔ سو ایسے کمزوروں اور ضعیفوں کا معاملہ مختلف ہے۔ اس لیے ان کا انجام وہ نہیں ہوگا جو دوسروں کا ہوگا۔ سو جن لوگوں کے پاس کوئی مجبوری بھی نہ ہو اور دار الاسلام کی طرف جانے کا راستہ بھی کھلا ہو، پھر بھی وہ دارالکفر سے ہجرت نہ کریں تو ان کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں جیسا کہ ابھی اوپر ایک ہی حاشیہ قبل تفسیر محاسن التاویل کے حوالے سے گزرا۔ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 261 صحیح راستے کے فقدان کے عذر کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا اور نہ ہی وہ کوئی راہ پاسکتے ہیں۔ یعنی ایسی راہ جو انہیں دارالامن والسلام تک پہنچا سکے، کہ انہیں نہ تو ایسی کوئی پناہ گاہ میسر ہے اور نہ وہ اس کے صحیح راستے سے واقف ہیں، جس کے بغیر نکلنے کے معنیٰ اپنے آپ کو تباہی میں ڈالنے کے ہیں۔ جیسا کہ عربوں کی قدیم مثل ہے " قَتَلَت الاَرْضُ جَاہِلَہَا " کہ زمین نے اپنے (راستوں کے) ناواقف کو ہلاک کردیا۔ سو اس سے صحیح راستے اور اس کی معرفت کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسی کے ذریعے انسان منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی لیے یہاں راستہ نہ جاننے کو ان کیلئے عذر قرار دیا گیا ہے۔ سو جو کوئی اتنا بےبس اور اس قدر معذور ہو کہ نہ اس سے خود کوئی تدبیر بن آرہی ہو اور نہ ہی اس کے لئے نکلنے بھاگنے کی کوئی راہ کھل رہی ہو تو اس پر اپنے دین و ایمان کی حفاظت تو اگرچہ پھر بھی لازم اور واجب ہے لیکن اس پر ہجرت فرض و لازم نہیں کہ وہ اس کے بس میں نہیں۔ اور جو چیز کسی کے بس میں نہ ہو وہ شرعی طور پر اس کا مکلف نہیں ہوسکتا کہ ضابطہ عام اور قاعدہ کلیۃ بہرحال یہی ہے کہ { لا یکلّفُ اللّٰہ نَفْساً اِلَّاوُسْعَہا } یعنی کسی کو اس کی قدرت وطاقت سے زیادہ مکلف نہیں بنایا جائے گا۔
Top