Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 15
وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِیْنٌؕ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے مِنْ عِبَادِهٖ : اس کے بندوں میں سے جُزْءًا : ایک جزو۔ حصہ ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ : البتہ ناشکرا ہے کھلم کھلا
مگر (اس سب کے باوجود) لوگوں نے اس کے کچھ بندوں کو اس کا جز بنا ڈالا واقعی انسان بڑا کھلا ناشکرا ہے
17 بندوں کی ناشکری کا ایک نمونہ و مظہر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اس سب کے باوجود لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے کچھ کو اسکا جزو بنادیا "۔ یعنی اللہ پاک کی اس عظمت و رفعت شان اور خود ان لوگوں کے اس اقرار و اعتراف کے باوجود کہ خالق ومالک سب کا اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ ان لوگوں نے اس کے بندوں میں سے کچھ کو اسکا جز بنا ڈالا۔ کوئی ملائکہ کو اس کی بیٹیاں قرار دیتا ہے۔ کسی نے عزیر کو اور کسی نے مسیح کو اس کا بیٹا قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہ سب مخلوق اور مادی جسم رکھنے والی ہستیاں ہیں۔ جبکہ اللہ پاک خالق اور جسم و جسمانیات سے پاک اور وراء الوراء ہے۔ افسوس کہ آج امت مسلمہ کے اندر بھی شرک اور شرکیات کی اس داء عضال کے جراثیم یہاں اور وہاں جگہ جگہ اور طرح طرح سے پائے جاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو کتنے ہی کلمہ گو مشرک ایسے ہیں جو اللہ کے بندوں اور اس کی پاکیزہ ہستیوں میں بعض کو " نور من نور اللہ " یعنی " اللہ کے نور میں سے ایک نور " اور اس کا جزء قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ زمین و آسمان کی اس ساری کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ تو پھر وہ اسکا جزء اور اس کی ذات کا حصہ آخر کس طرح ہوسکتی ہے ؟ ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو یہ انسان کا انتہائی ناشکرا پن اور اس کی اوندھی منطق ہے کہ ملتا تو اس کو سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے لیکن یہ اس میں شریک اور حصہ دار ان دوسری چیزوں کو ٹھہراتا ہے جن کا اس کی عطا و بخشش اور داد و دہش میں نہ کوئی حصہ ہوتا ہے اور نہ کوئی عمل دخل۔ اور نہ ایسے ہوسکتا ہے۔ پھر بھی یہ ناشکرا انسان اس واہب مطلق اور اس کے احسان کو بھول کر انہی خودساختہ شریکوں اور فرضی " ہستیوں " اور وہمی اور بناوٹی " سرکاروں " کے گن گاتا اور انہی کی پوجا و پرستش کرنے لگتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 18 انسان کی ناشکری کا شکوہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور تاکید در تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " واقعی یہ انسان بڑا ہی کھلا ناشکرا ہے "۔ کہ جو بھی کوئی غور کرے گا اس کو انسان کفور کی ناشکری کھلم کھلا نظر آئے گی۔ اور انسان سے یہاں پر مراد جنس انسان ہے نہ کہ کوئی خاص فرد ۔ " اَیْ جِنْسُہٗ " ۔ (جامع البیان) ۔ سو یہ اس انسان کا حال بیان فرمایا گیا ہے جو حق اور ہدایت کے نور سے محروم ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ انسان جب سر سے پاؤں تک اور اول سے آخر تک اس واہب مطلق کی طرح طرح کی اور بےحد و حساب نعمتوں میں ڈوبا ہوا ہے پھر بھی اگر یہ اس سے منہ موڑ کر اوروں کے گن گائے تو اس سے بڑھ کر کفران اور ناشکری کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ یہاں پر یہ امر بھی واضح رہے کہ مشرکین کی دیویوں اور دیوتاؤں میں سے کچھ تو وہ تھے جن کو وہ خداوند قدوس کی صفات یا اس کے حقوق و اختیارات میں شریک مانتے تھے۔ لیکن ان میں کچھ ایسے بھی تھے جن کو وہ خدا کی ذات میں بھی شریک جانتے تھے۔ مثلا ملائکہ کے بارے میں ان لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں جو اس کی بڑی چہیتی ہیں۔ جو چاہیں اس سے منوا اور کروا سکتی ہیں۔ پس ہمارے لیے انہی کو راضی اور خوش رکھنا کافی ہے۔ انہی کی پوجا و پرستش ہماری شفاعت اور نجات کے لیے کافی ہے۔ سو قرآن حکیم میں یہاں پر ان کے اسی زعم باطل کی تردید فرمائی گئی۔ سو ان لوگوں کی ایسی تمام باتیں بےبنیاد اور من گھڑت ہیں جن کی نہ کوئی اساس و بنیاد ہے نہ ہوسکتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top