Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 40
اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اَوْ تَهْدِی الْعُمْیَ وَ مَنْ كَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَاَنْتَ : کیا بھلا تو تُسْمِعُ الصُّمَّ : تو سنوائے گا بہروں کو اَوْ تَهْدِي : یا تو راہ دکھائے گا الْعُمْيَ : اندھوں کو وَمَنْ كَانَ : اور کوئی ہو وہ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی میں
کیا آپ سنا سکتے ہیں بہروں کو ؟ یا آپ راستہ دکھا سکتے ہیں اندھوں کو ؟ اور ان کو جو (ڈوبے پڑے) ہیں کھلی گمراہی میں ؟1
53 پیغمبر کے لیے تسکین وتسلیہ کا سامان : سو پیغمبر کی تسکین وتسلیہ کے لیے فرمایا گیا کہ یہ لوگ اگر نہیں سنتے تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں بلکہ اصل رکاوٹ انکا عناد اور ہٹ دھرمی ہے جس کی بنا پر یہ اندھے بہرے بن کر رہ گئے ہیں۔ سو آپ کی تذکیر و موعظت ان ہی لوگوں کے اندر کارگر ہوسکتی ہے جو زندہ ہوں اور ان کے اندر دیکھنے سننے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت باقی ہو۔ جبکہ ان لوگوں نے اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر علم وادراک کی صلاحیتوں کو تباہ کردیا ہے۔ اور یہ اندھے اور بہرے بن کر رہ گئے ہیں۔ اور اندھوں بہروں کو راستہ دکھانا کسی کے بس میں نہیں۔ یعنی یہ لوگ صرف گمراہ ہی نہیں بلکہ گمراہی میں غرق اور اس میں غوطہ زن ہیں۔ تو پھر ان کو ہدایت کس طرح ہوسکتی ہے ؟ کشتی پانی میں ہو تو پار لگ سکتی ہے مگر جب پانی کشتی میں بھر آئے تو اس کے پار لگنے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟ پس آپ ایسے اندھوں بہروں کی وجہ سے اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالیں۔ اور ان پر اتنا افسوس نہ کریں کہ اس میں اپنی جان عزیز کو بھی داؤ پر لگا دیں ۔ { فَلا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرَاتٍ } ۔ (فاطر : 8) ۔ سو یہ دراصل آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ ﷺ جو ان کی ہدایت کی حرص رکھتے ہیں اسکا کوئی فائدہ نہیں کہ یہ لوگ آپ ﷺ کی حرص کے باوجود ایمان لانے والے نہیں۔ اس لئے آپ ان کی اتنی فکر نہ کریں ۔ { وَمَا اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْن } ۔ کہ انہوں نے اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اپنی آنکھوں کو اندھا اور اپنے کانوں کو بہرہ کردیا ہے۔ اور اپنے دلوں پر انہوں نے تالے چڑھا دیئے ہیں۔ سو ایسوں کو راہ راست پر لانا کسی کے بس میں نہیں کہ ان پر اللہ کی مار پڑچکی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top