Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 81
قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ١ۖۗ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنْ : اگر كَانَ للرَّحْمٰنِ : ہے رحمن کے لیے وَلَدٌ : کوئی بیٹا۔ اولاد فَاَنَا : تو میں اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ : سب سے پہلا ہوں عبادت کرنے والوں میں
(ان سے) کہو کہ اگر (بالفرض خدائے) رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں عبادت کرنے والا ہوتا
105 خدائے رحمن کی کوئی اولاد نہیں : جیسا کہ مشرک لوگوں کا کہنا ہے کہ کسی نے حضرت عزیر کو اس وحدہ لاشریک کا بیٹا قرار دیا اور کسی نے حضرت عیسیٰ کو ۔ عَلٰی نَبْینا وعلیہما الصَّلوۃُ والسَّلام ۔ اور کسی نے کہا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان تمام سے یہ بات کہہ دو اور یہ پوچھو تاکہ اس طرح حق اور واضح ہوجائے۔ سو ان سے کہو کہ اگر بالفرض خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہوتی جیسا کہ تم لوگوں کا کہنا اور ماننا ہے تو سب سے پہلے میں اس حقیقت کو تسلیم کرتا اور اس کے آگے جھک جاتا۔ اور جب ایسی کوئی بات نہیں تو پھر اس کی کوئی اولاد کس طرح ہوسکتی ہے ؟۔ سو وہ اس طرح کے تمام علائق اور تصورات سے پاک اور اعلیٰ وبالا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 106 عبادت وجود معبود کا لازمی تقاضا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان سے کہو کہ اگر بالفرض ایسا ہوتا یعنی خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں اس کی عبادت کرنے والا ہوتا "۔ کہ عبادت وجود معبود کا لازمی تقاضا ہے۔ اور اس وحدہ لاشریک سے سب سے زیادہ قرب و اتصال تو مجھ ہی کو حاصل ہے۔ اور اس کی اطاعت و بندگی میں سب سے آگے میں ہی ہوں۔ اور جب میں ایسے نہیں کرتا بلکہ پوری قوت اور زور سے سب کو بتارہا ہوں کہ عقل و نقل کی ہر دلیل سے یہی ثابت ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہے ہی نہیں۔ اور وہ ایسے ہر شائبے سے پاک ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ تو پھر تم لوگوں کو بھی یہی یقین کرنا اور اسی بنیاد پر عمل کرنا چاہیئے کہ اس کی نہ کسی طرح کی کوئی اولاد ہے اور نہ ایسے ممکن ہی ہے۔ وہ وحدہ لاشریک ہے اور اس کی شان ۔ { لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ } ۔ کی شان ہے۔ پس جن لوگوں نے اس کی اولاد مانی انہوں نے بڑے ہی ہولناک جرم کا ارتکاب کیا اور ایسے بڑے اور اس قدر ہولناک جرم کا ارتکاب کیا کہ اس کی بنا پر قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور دیوہیکل پہاڑ گر کر ریزہ ریزہ ہوجائیں جس طرح کہ سورة مریم کی آیت نمبر 88 تا آیت نمبر 29 میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top