Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
بلاشبہ اللہ راضی ہوگیا ان (خوش نصیب) ایمانداروں سے جو بیعت کر رہے تھے آپ ﷺ سے (اے پیغمبر ! ) اس درخت کے نیچے سو اللہ نے جان لیا جو کچھ (صدق و اخلاص) ان کے دلوں میں تھا اور اس نے نازل فرما دی ان پر سکون (و اطمینان) کی کیفیت اور اس نے نواز دیا ان کو اس کے (صلہ و) عوض میں قریب ہی ملنے والی ایک عظیم الشان فتح (و کامرانی) سے1
[ 41] بیعت رضوان والوں کیلئے اجر عظیم کا ذکر وبیان : سو اس سے بیعت رضوان والوں کے لیے رضاء خداوندی کے عظیم الشان اجر و انعام کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا اور لقد کی تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ اللہ راضٰ ہوگیا ان ایمان والوں سے جو آپ ﷺ کے ہاتھ پر [ اے پیغمبر !] بیعت کر رہے تھے، پس اس سے دو اہم باتیں معلوم ہوگئیں، ایک یہ کہ جن حضرات نے اس بیعت میں شرکت فرمائی تھی وہ سب کے سب سچے پکے مومن تھے، اور دوسرے یہ کہ ان کو اللہ پاک کی رضا کا سرٹیفکیٹ مل گیا، اور اللہ ان سے راضی ہوگیا، اسی لئے اس بیعت کو بیعت رضوان یعنی رضاء خداوندی والی بیعت کہا جاتا ہے، اور آیت کریمہ کو قد اور لام تاکید کی ڈبل تاکید سے شروع فرمایا گیا ہے، پس جو کوئی ان صحابہ کرام پر طعن وتشنیع کرے گا اور ان کے ایمان و یقین اور صدق و صفا میں کیڑے نکالے گا، جیسا کہ روا فض وغیرہ کا وطیرہ ہے تو وہ اس آیت کریمہ اور اس اعلان و ارشاد خداوندی کے انکار کی وجہ سے کافر قرار پائے گا، والعیاذ باللہ اور صحیح مسلم، ابو داؤد اور ترمذی وغیرہ میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جن حضرات نے بیعت رضوان میں شرکت فرمائی ان میں سے کوئی بھی دوزخ میں نہیں جائے گا، رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین پس جن حضرات نے حدیبیہ کے اس نازک موقع پر اور احرام کی حالت میں ہونے کے باوجود پیغمبر کے ہاتھ پر جہاد اور موت کی بیعت کی، انہوں نے اپنے صدق ایمان کا عملی طور پر پورا پورا ثبوت پیش کردیا، اور انہوں نے اپنی اس بیعت کا حق ادا کردیا، اس لیے ان کو خداوند قدوس کی رضاء و خوشنودی کی سند اس صراحت و وضاحت کے ساتھ عطاء فرمائی گئی جو ایک بےمثال انعام اور عدیم النظیر اعزازو اکرام تھا جس سے حضرت واہب مطلق جل و علا شانہ نے ان کو نوازا، رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم وارضاہم وعنا معھم اجمعین اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کی محبت اور اطاعت و اتباع سے سرشار رکھے اور ان کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ [ 42] شجرہئِ بیعت کی عظمت شان اور اس سے متعلق درس عظیم : جمہور مفسرین کے نزدیک یہ درخت سمرۃ [ کیکر ] کا درخت تھا جسے ببول بھی کہا جاتا ہے، پھر اللہ پاک نے اس درخت کو چھپا دیا تاکہ کہیں لوگ اس کی تعظیم و تقدیس کے ذریعے شرک میں مبتلا نہ ہوجائیں، اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ قدرت کی طرف سے اس درخت کو اس طرح چھپا دیا گیا کہ ہم میں سے دو آدمیوں کے درمیان بھی اس کے بارے میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا تھا، نیز آپ ؓ فرماتے ہیں کہ اس درخت کا اس طرح چھپا دیا جانا قدرت کی طرف سے بہر بڑی رحمت تھی، اور امر واقع بھی یہی ہے کہ جو لوگ آج کل کے دور میں ہر ایرے غیرے درختوں، پتھروں اور قبروں تک کو پوجنے سے نہیں چوکتے تو ان کو اگر وہ درخت مل جاتا، جس کے نیچے بیعت رضوان جیسا تاریخ ساز اور مقدس واقعہ پیش آیا، تو اس کے ساتھ یہ کیا کچھ نہ کرتے، پھر بھی حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کے دور میں جب کچھ لوگوں نے ایک درخت کے بارے میں یہ مشہور کردیا کہ یہ وہی درخت ہے جس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی اور لوگ اس کی زیارت و تعظیم کو آنے لگے، تو حضرت عمر ؓ نے اس کی اطلاع ملتے ہی اسے فوری طور پر کٹوا کر ختم کردیا [ ملاحظہ و تفسیر المراغی، جامع البیان، فتح البیان اور محاسن التاویل وغیرہ ] سبحان اللہ ! کہاں یہ صورت حال اور عظیم الشان نمونہء عبرت و بصیرت کہ حضرت عمر ؓ اس درخت کو کٹوا دیتے ہیں، جس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی، اور حضرت امام الانبیاء ﷺ نے یہ بیعت خود لی اور جس کا ذکر قرآن حکیم میں اس صراحت و وضاحت سے فرمایا گیا ہے، اور کہاں آج کے جاہل مسلمان کا یہ طرز عمل، کہ وہ جگہ جگہ، طرح طرح کے درختوں خود ساختہ " سرکاروں " اور آستانوں کی کھلم کھلا اور طرح طرح سے پوجا پاٹ کا ارتکاب کر رہا ہے، جہاں کوئی بزرگ بیٹھا تھا اس کو " بیٹھک " کے نام سے مقدس مقام قرار دے دیا گیا، اور اس کی زیارت و درشن کے پروگرام بنائے جانے لگے، اور طرح طرح کی خرافات کا ارتکاب کیا جانے لگا، اور ایسے لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اللہ کے نبی بذات خود اپنی تریسٹھ سالہ حیات طیبہ میں کہاں کہاں نہ بیٹھے ہوں گے، پھر آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے صحابہء کرام ؓ اور انکے بعد ان کی پیروی کرنے والے تابعین عظام کہاں کہاں نہ بیٹھے ہوں گے، اور حرمین شریفین کی ارض طیبہ کا تو چپہ چپہ پاک و مقدس اور عظیم الشان روایات کا امین و پاسدار ہے، مگر اس سب کے باوجود جب وہاں اس طرح کی کسی بیٹھک کا کوئی تصور تک نہیں تو پھر اور کسی جگہ اس کا کیا سوال پیدا ہوسکتا ہے ؟ کاش کہ ان لوگوں کو اتنی واضح اور جلی حقیقت سمجھ آجاتی، اور یہ اس طرح کی شرکیات کی دلدل میں نہ پھنستے، اور اپنی عاقبت خراب نہ کرتے، مگر کہاں اور کیونکر ؟ جبکہ یہ اس بارے میں سوچنے اور غور کرنے کے بھی روادار نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ایسے لوگ اس طرح کی خود ساختہ اور من گھڑت چیزوں کو رواج دینے کیلئے طرح طرح کے جھوٹے قصے بناتے اور پھیلاتے ہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر قائم رکھے اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اور ہر قسم کے زیغ و ضلال سے ہمیشہ محفوظ رکھے، آمین ثم آمین۔ [ 43] صحابہء کرام ؓ کے صدق و صفا کیلئے خدائی شہادت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے جان لیا اس کو جو کہ ان کے دلوں میں تھا۔ یعنی صدق و صفا اور نور ایمان و یقین جس کی بنا پر ان کو اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور عنایتوں سے نوازا گیا، کہ اللہ پاک سبحانہ وتعالیٰ کی دادودہش اور بخشش وعطاء یوں ہی نہیں مل جاتی، اور اس کے یہاں محض ظاہرداری سے کام نہیں چل سکتا، بلکہ وہاں پر اصل دار و مدار دل کی دنیا اور اس کے اندر چھپی ہوئی نیتوں پر ہوتا ہے، سو دلوں کے اس منفرد اور کٹھن امتحان میں یہ حضرات صحابہء کرام ؓ صاف و کھرے نکلے اور پورے اترے، اسلئے ان کو رضاء خداوندی کے اس عظیم الشان اور بےمثال سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا، کیونکہ سنت الٰہی یہی ہے کہ اللہ کے بندے جب اللہ کی راہ میں جہاد کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو طاہری حالات خواہ کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، رب کریم ان کی حوصلہ افزائی فرماتا ہے اور ان کو اپنی خاص رحمتوں اور عنایتوں سے نوازتا ہے، اور خداوند قدس کی طرف سے حاصل ہونے والی حوصلہ افزائی انسان کو ایسی قوت بخشتی ہے کہ اس کو کوئی طاقتور سے طاقتور دشمن بھی شکست نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی خاص رحمتوں اور عنایتوں کے سائے میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔ [ 44] حضرات صحابہء کرام ؓ کیلئے سکون و اطمینان قلوب کی نوازش کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس صدق و صفا اور نور ایمان و یقین کی بنا پر ان کو خاص عنایت سے نوازا گیا۔ چناچہ ارشاد ہوا کہ اس نے نازل فرما دی ان پر سکون و اطمینان کی خاص کیفیت۔ جس سے ان کے دلوں میں نہ کوئی خوف تھا نہ پریشانی، جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ نہتے خالی ہاتھ، اور احرام کی دو چادروں میں ملبوس ہونے کے باوجود، کفار کے ساتھ ان کے گھر میں لڑنے کے لئے تیار ہوگئے، اور پیغمبر کے ہاتھ پر رضا ورغبت موت کیلئے بیعت کی، اس بےمثال صدق و اطمینان اور اطاعت و فدا کاری کی مثال چشم فلک نے نہ اس سے پہلے کبھی دیکھی ہوگی، نہ اس کے بعد قیامت تک کبھی دیکھ سکے گی " فرضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین " سو باطن کی صفائی اور نیت و ارادہ کی سچائی انسان کو اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور عنایتوں کا موردو مستحق بنا دیتی ہے۔ اور اسی کی بدولت انسان پر اس واہب مطلق جل جلالہ کی طرف سے رحمتوں اور عنایتوں کی بارش ہوتی ہے جتنا کسی کا باطن صاف اور ایمان و یقین قوی و مضبوط ہوگا اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی عنایات کا مستحق اور امورد بنے گا۔ اسلئے ہمیشہ اور ہر حال میں اس کے ساتھ اپنے قلب و باطن اور ارادہ عمل کا معاملہ صحیح رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہی اصل اور اساس ہے سارے معاملے کی۔ اللہ پاک نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے اور بدرجہء تمام و کمال نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین، واکرم الاکرمین، [ 45] شرکائے حدیبیہ کیلئے ایک خاص انعام کا ذکر وبیان : سو اس ارشاد سے حدیبیہ کے شرکاء کیلئے قریب کی فتح اور مغانم کثیرہ کے انعام کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ عام طور پر حضرات مفسرین کرام نے اس فتح سے مراد فتح خیبر لی ہے، لیکن دوسرا قول اس ضمن میں حضرات اہل علم کا یہ بھی ہے کہ اس فتح سے مراد یہی صلح حدیبیہ کی فتح ہے کہ یہی وہ بنیادی اور اہم فتح تھی جس سے اہل حق کے لئے دوسری تمام فتوحات کے راستے اور دروازے کھلتے اور آسان ہوتے چلے گئے، اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد مکہ مکرمہ فتح ہوا خیبر کی فتح نصیب ہوئی اور دیگر فتوحات حاصل ہوتی گئیں [ ابن کثیر، جامع البیان وغیرہ ] اور یہی قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ ہی کو قرآن حکیم میں فتح مبین فرمایا گیا۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی میں شرکاء حدیبیہ کیلئے ان کے صدق و اخلاص کی بنا پر آئندہ اور یہی قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ ہی کو قرآن حکیم میں فتح مبین فرمایا گیا ہے۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی میں شرکائے حدیبیہ کے لئے ان کے صدق و اخلاص کی بناء پر آئندہ حاصل ہونے والی فتوحات اور غنائم کثیرہ کی بشارت و خوشخبری کا ذکر ہے، سو بندے کا تعلق اپنے رب کے ساتھ جتنا صحیح ہوگا اتنا ہی وہ اس کو نوازے گا، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید،
Top