Tafseer-e-Madani - Al-Hujuraat : 5
وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ صَبَرُوْا : صبر کرتے حَتّٰى : یہاں تک کہ تَخْرُجَ : آپ نکل آتے اِلَيْهِمْ : ان کے پاس لَكَانَ : البتہ ہوگا خَيْرًا : بہتر لَّهُمْ ۭ : ان کے لئے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور اگر یہ لوگ صبر سے کام لیتے یہاں تک کہ آپ ﷺ خود ہی ان کے پاس نکل آتے تو یہ زیادہ بہتر ہوتا خود ان کے لئے اور اللہ بڑا ہی درگزر کرنے والا انتہائی مہربان ہے
[ 12] ادب صحیح کی تعلیم و تلقین کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر یہ لوگ صبر سے کام لیتے تو یہ خود انہی کیلئے بہتر ہوتا "۔ کہ یہ حضرت رسالت مآب ﷺ کے ادب کا تقاضا ہے۔ اسی سے حضرات مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ اپنے اساتذہ و مشائخ کے بارے میں بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے اور حضرات اسلاف کرام کا طریقہ و معمول بھی یہی تھا۔ چناچہ ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی کسی عالم کے دروازے پر جاکر ان کو دستک نہیں دی بلکہ اس بات کا انتظار کیا کہ وہ خود باہر تشریف لائیں تو ملاقات کروں گا۔ اور حضرت ابن عباس ؓ ما جب کسی صحابی سے کوئی حدیث دریافت کرنے کیلئے جانتے تو ان کے انتظار میں ان کے دروازے پر بیٹھ جاتے۔ اور کوئی آواز یا دستک وغیرہ نہ دیتے۔ یہاں تک کہ جب وہ خود باہر نکلتے اور وہ آپ کو اپنے دروازے پر بیٹھا ہوا پاتے تو کہتے کہ پیغمبر ﷺ کے چچا زاد ! آپ نے ہمیں دستک وغیرہ کے ذریعے اطلاع کیوں نہ دی ؟ تو حضرت ابن عباس ؓ اس کے جواب میں یہی آیت کریمہ تلاوت فرما کر اسی ادب رفیع کا حوالہ دے دیتے۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی میں اس ادب عالی کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے جو حضرت رسالت مآب ﷺ کے بارے میں بندہ مومن کو اختیار کرنا چاہیے۔ اور یہی وہ ادب مطلوب و محمود ہے جو انسان کو اس کے بعد اپنے بڑوں اور اساتذہ و مشائخ کے بارے میں اختیار کرنا چاہئے کہ اس میں بڑوں کے ادب و احترام کے تقاضے بھی ملحوظ ہیں۔ اور یہی چیز تہذیب و شائستگی اور تفاوت مراتب و درجات کے لائق ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ انسان یہ کہے کہ مجھ سے دوسروں کو فائدہ اور آرام تو پہنچے مگر مجھ سے کسی دوسرے کو تکلیف اور ایذا نہ پہنچے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، [ 13] اللہ تعالیٰ کی بخشش و رحمت کی تذکیر و یاد دہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ بڑا ہی درگزر کرنے والا انتہائی مہربان ہے "۔ اس لئے وہ نہ صرف یہ کہ خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرماتا ہے بلکہ رحم بھی فرماتا ہے کہ وہ غفور کے ساتھ رحیم بھی ہے۔ اور اس کا کام اور اس کی شان ہی کرم فرمانا اور رحمتوں پر رحمتوں سے نوازنا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس اس کے حضور توبہ و رجوع صدق دل سے ہونا چاہئے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو اس موقع پر " غفور " اور " رحیم " کی ان دو صفتوں کے ذکر اور ان کی یاد دہانی سے مقصود بڑے ہی لطیف انداز میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اگرچہ ان لوگوں کی ایسی حرکتیں ادب رسالت کے خلاف اور نہایت ناگوار ہیں لیکن یہ لوگ چونکہ صحیح سمجھ بوجھ رکھنے والے نہیں ہیں اس لیے ان سے عفو و درگزر ہی سے کام لو۔ کیونکہ جب وہ اللہ غفور و رحیم ہے اور وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا انتہائی مہربان ہے تو اس کے رسول کے بھی شایان شان بھی یہی ہے کہ وہ بھی عفودرگزر ہی سے کام لیں۔ اور اسی طرح اس رسول کریم کے امتیوں اور خاص کر علماء و دعاۃ کی بھی یہی شان ہوتی ہے۔ وباللّٰہ التوفیق۔ بہرکیف اس میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت و بخشش کی تذکیر و یاد دہانی اور اس کی طرف صدق دل سے رجوع کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ فاغفرلی وارحمنی یا من مغفرتہ اوسع من ذنوبی، ورحمتہ ارجٰی عندی من عملی، فانک انت الا عن الاکرم، تبارکت وتعالیت۔
Top