Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 84
وَ مَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ مَا جَآءَنَا مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ نَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ
وَمَا : اور کیا لَنَا : ہم کو لَا نُؤْمِنُ : ہم ایمان نہ لائیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَا : اور جو جَآءَنَا : ہمارے پاس آیا مِنَ : سے۔ پر الْحَقِّ : حق وَنَطْمَعُ : اور ہم طمع رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّدْخِلَنَا : ہمیں داخل کرے رَبُّنَا : ہمارا رب مَعَ : ساتھ الْقَوْمِ : قوم الصّٰلِحِيْنَ : نیک لوگ
اور ہمارے لئے کیا عذر ہوسکتا ہے کہ ہم ایمان نہ لائیں اللہ پر، اور اس حق پر، جو کہ پہنچ چکا ہمارے پاس، جب کہ ہم اس کی بھی طمع رکھتے ہیں کہ داخل فرما دے ہمیں ہمارا رب نیک بخت لوگوں کے ساتھ (اپنی رحمت میں)
210 ِ صدق و اخلاص کا نتیجہ رجوع الی الحق : سو اس سے صحت باطن اور صدق دل کے آثار وثمرات کا ایک عمدہ نمونہ پیش فرمایا گیا ہے۔ـسو ایسے لوگ اپنے باطن کے صدق و صفا کی بنا پر کہتے ہیں کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک بخت لوگوں کے ساتھ اپنی رحمت میں داخل فرما دے۔ یعنی انبیاء و مومنین کے ساتھ جنت میں۔ (محاسن التاویل) ۔ یعنی ایسے میں جبکہ ہم یہ طمع بھی رکھتے ہیں اور حق بھی ہمارے پاس پہنچ گیا ہے ہمیں ضرور اس دین حق پر ایمان لے آنا چاہیئے کہ اس کے بعد اس ضمن میں ہمارے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہ جاتا۔ پس جب انسان کی فطرت صحیح ہو تو وہ ندائے حق کے جواب میں ایسے ہی دل و جان سے لبیک کہتا ہے۔ اور حق کی اس دعوت وپکار کو وہ اپنے ضمیر و وجدان کی آواز پکار سمجھتا ہے۔ روایات میں وارد ہے کہ یہ بات ان حضرات نے ان یہود وغیرہ اعدائے اسلام کے جواب میں کہی جنہوں نے ان کو عار دلائی اور طعنہ دیا کہ تم کیسے لوگ ہو کہ فوراً اس دین پر ایمان لے آئے ہو۔ حالانکہ تم نے اس نئے پیغمبر کو دیکھا بھی نہیں وغیرہ۔
Top