Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 86
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیات اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ : ساتھی (والے) الْجَحِيْمِ : دوزخ
اور (اس کے برعکس) جو لوگ اڑے رہے اپنے کفر (وباطل) پر، اور انہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، تو وہ یار ہوں گے دوزخ کی اس دہکتی بھڑکتی آگ کے،
212 منکروں کا انجام دوزخ ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اڑے رہے ہوں گے کفر و باطل پر ۔ والعیاذ باللہ ۔ تو وہ یار ہوں گے دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ کے۔ " ـ جَحِیْم " دراصل اس آگ کو کہا جاتا ہے جس کو کسی گہرے گڑھے میں جلایا جائے تاکہ اس کی لہیب یعنی شعلہ زنی اور دہک میں کمی نہ آنے پائے۔ (تفسیر التحریر والتنویر للعلامۃ ابن عاشور ) ۔ پھر دوزخ کی وہ آگ ایسی سخت اور اس قدر ہولناک ہوگی کہ ان کو چھوڑے گی بھی نہیں کہ وہ اس سے کوئی راحت و سکون پاسکیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بلکہ وہ ان کے ساتھ اس طرح چمٹی اور لپٹی رہے گی جس طرح کہ ایک دوست دوسرے دوست سے اور ایک ساتھی دوسرے ساتھی کے ساتھ چمٹا رہتا ہے۔ اسی لئے یہاں پر { اَصْحَابُ الْجَحِیْم } فرمایا گیا ہے جو کہ جمع ہے " صاحب " کی۔ جسکے معنیٰ ساتھی اور دوست کے آتے ہیں۔ یعنی ایسے لوگ دوزخ کی اس دہکتی بھڑکتی آگ کے ساتھی اور اس کے یار ہوں گے۔ نہ وہ آگ ان کو چھوڑے گی اور نہ یہ کبھی اس سے الگ ہو سکیں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ عام طور پر اس کا ترجمہ " جہنمی " یا " دوزخی " وغیرہ جیسے الفاظ سے کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے وہ پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا جو کہ { اَصْحَابُ الْجَحِیْم } کے الفاظ کے اندر پایا جاتا ہے۔ سو ہم نے اپنے ترجمے میں اسی کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ والحمد للہ ۔ اور دوزخ کی وہ آگ چونکہ دنیاوی آگ کی طرح اندھی بہری آگ نہیں ہوگی کہ سب کے ساتھ ایک ہی طرح کا معاملہ کرے، بلکہ وہ ایسی آگ ہوگی جو مجرم کو اور اس کے جرم کو پہچانتی ہوگی۔ اس لئے وہ ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گی جس کا وہ اپنے کفر و باطل اور اپنے جرم و قصور کی بنا پر اہل اور مستحق ہوگا۔ کہ وہ دلوں تک جھانکنے والی آگ ہوگی۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں دوسرے مقامات پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ مثلاً فرمایا گیا ۔ { اَلَِّتی تَطَّلِعُ عَلَی اْلاَفْئِدَۃ } ۔ (الھمزۃ : 7) ۔ نیز فرمایا گیا کہ ۔ { تَدْعُوْ مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰی } ۔ (المعارج : 17) یعنی وہ آگ بلاتی پکارتی ہوگی ان لوگوں کو جن کے دنیا میں یہ اور یہ کرتوت رہے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ سو جن لوگوں نے زندگی بھر اپنے کفر و باطل اور حق دشمنی کو سینے سے لگائے رکھا ہوگا وہ اسی لائق ہوں گے کہ وہ ایسی دہکتی بھڑکتی آگ کے ساتھی اور یار قرار پائیں جس سے وہ کبھی چھٹکارا نہ پاسکیں۔ اپنے خود کردہ جرم عظیم اور گناہ سنگین کے نتیجے میں تاکہ ان کو بھرپور بدلہ ۔ جزاء وفاق ۔ مل سکے اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top