Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 37
وَ تَرَكْنَا فِیْهَاۤ اٰیَةً لِّلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَؕ
وَتَرَكْنَا : اور چھوڑ دی ہم نے فِيْهَآ : اس میں اٰيَةً لِّلَّذِيْنَ : ایک نشانی ان لوگوں کے لیے يَخَافُوْنَ : جو ڈرتے ہیں الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ : دردناک عذاب سے
اور چھوڑ دی ہم نے اس (واقعے) میں ایک بھاری نشانی ان لوگوں کے لئے جو ڈرتے ہیں دردناک عذاب سے
[ 34] قوم لوط کی بستی میں ایک عظیم الشان عبرت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے اس میں چھوڑ دی ایک بڑی بھاری نشانی ان لوگوں کے لئے جو ڈرتے ہیں عذاب الیم سے۔ سو وہ نشانی تھی اس بات کی کہ حق و ہدایت کے منکروں اور حضرات انبیاء و رسل (علیہ السلام) اور ان کی دعوت و پیغام کے جھٹلانے والوں کا آخری انجام کیا اور کس قدر ہولناک ہوتا ہے۔ قوم لوط کی ان ہری بھری گنجان بستیوں کو اور ان کے باشندوں کو کس طرح نیست و نابود کرکے ہمیشہ کے لئے نشان عبرت اور قصہ پارینہ بنادیا گیا اور ان کی جگہ بحیرہ طبریہ کا وہ سمندر اپنی زبان حال سے ان بدبختوں کی داستان عبرت سنا رہا ہے، جس کو بحر میت [ Dead Sea ] بحیرہ مردار، اور لوط بھی کہا جاتا ہے اور اس طرح یہ مجرم اس ہولناک انجام سے دو چار ہو کر ہمیشہ ہمیش کے لئے مٹ گئی۔ والعیاذ باللہ۔ [ روح، قرطبی، مراغی، ابن کثیر، اور مدارک وغیرہ ] بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ قوم لوط کی اس بستی اور ان بدبختوں کی داستان عبرت میں ہم نے ایک بھاری اور واضح نشانی لوگوں کی عبرت پذیری کے لئے چھوڑی، تاکہ یہ اس سے سبق لیں اور کفر و انکار کی بجائے ایمان و یقین اور تمردوسر کشی کی بجائے اطاعت و فرمانبرداری کی راہ کو اپنا کر اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان کریں اور اس برے اور ہولناک انجام سے بچ جائیں جس سے ماضی میں یہ قومیں دوچار ہوچکی ہیں، مگر ایسے نشانہائے عبرت سے سبق وہی لوگ لیتے ہیں جو ایسے ہولناک انجام اور اس طرح کے دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں، رہ گئے وہ لوگ جو اس طرح کے ہر سامان عبرت و بصیرت سے آنکھیں بند کرکے محض حیوانوں کی زندگی گزارتے ہیں اور وہ حیوان محض بن کر بطن و فرج کی شہوات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ تو ان کے لئے ایسی باتوں میں کوئی سامان عبرت و بصیرت نہیں ہوتا تاکہ عذاب کا کوڑا ان کے سروں پر اسی طرح بر سے جس طرح کسی حیوان کے سر پر برستا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ فکر و نظر کی ہر کجی سے محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ [ 35] خوف خداوندی اصلاح احوال کی اصل اساس : اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ایسی نشانیاں انہی لوگوں کیلئے کارگر ہوسکتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس قصے میں عظیم الشان نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو ڈرتے ہیں وہ دردناک عذاب سے۔ یعنی یہ عظیم الشان نشانی ہے تو سب کے لئے اور ایک کھلی کتاب کی طرح، اور یہ درس عبرت بھی موجود تو سب کے لئے ہے، مگر اس سے سبق وہی لے گا جو اللہ کی پکڑ اور اس کی طرف سے آنے والے دردناک عذاب سے ڈرتا ہو، اور اس سے بچنے کی فکر کرتا ہو۔ اور ایسے واقعات سے درس عبرت لینا چاہتا ہو کہ کس طرح اور کس بنا پر یہ قوم اس قدر ہولناک انجام سے دو چار ہوئی، اور ہمیشہ کے لئے مٹ کر قصہ پارینہ بن گئی اور کس طرح اور کس بناء پر ان کی ان گنجان آباد بستیوں کو تلپٹ اور تہ وبالا کرکے ہمیشہ کیلئے ختم کردیا گیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { فجعلنا عالیہا سافلہا وامطرنا علیہم حجارۃً من سجیل } [ الحضر : 74 پ 14] [ پس آخر کار ہم نے تہ وبالا کرکے رکھ دیا ان کی بستیوں کو، اور ان پر برسادی سنگ گل کی قسم کے پتھروں کی ایک ہولناک بارش ] سو یہ انجام ہوتا ہے ان لوگوں کا جو حق کو جھٹلاتے، اور اس کا انکار کرتے ہیں، جو اپنی حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی تعلیمات مقدسہ کا مذاق اڑاتے ہیں، اور ان سے روگردانی کرتے ہیں، جو خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں، اور وہ ان پر ہی کے لئے چیتے اور ان ہی کیلئے مرتے ہیں اور خاص حیوان بن کر بلکہ اس سے بھی گر کر اور " اسفل السافلین " بن کر رہنا چاہتے ہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو امن و سلامتی کی راہ صرف یہ ہے کہ حضرات انبیاء (علیہ السلام) کے توسط سے ملنے والے پیغام حق و ہدایت کو صدق دل سے قبول کرکے اس کے مطابق زندگی گزاری جائے، کہ یہی اور صرف یہی راستہ ہے دارین کی سعادت و سرخروئی اور حقیقی فوز و فلاح کا۔ مگر یہ سب کچھ تب نصیب ہوتا ہے جب کہ انسان سچے دل سے حق و ہدایت کا طالب ہو، اور اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے ڈرتا ہو۔ ورنہ محض حیوانی آنکھوں سے دیکھنے سے حق و ہدایت کی روشنی نصیب ہوسکتی۔ یہی بات جب تھی اور یہی اب ہے۔ یہی قانون و ضابطہ کل تھا اور یہی آج بھی کتنے عبرت ناک حوادث و واقعات اس کرہ ارضی پر یہاں اور وہاں، جگہ جگہ، اور طرح طرح، سے رونما ہوتے رہتے ہیں، مگر کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو اس سے درس عبرت و بصیرت لیتے اور سامان اصلاح حاصل کرتے ہوں گے ؟ سو بیماریوں کی بیماری اور فساد و خرابی کی اصل جڑ و بنیاد انسان کی غفلت و لاپرواہی، اور نور حق سے اعراض و بےاعتنائی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب کرئے آمین ثم آمین یا رب العالمین،
Top