Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 38
وَ فِیْ مُوْسٰۤى اِذْ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ
وَفِيْ مُوْسٰٓى : اور موسیٰ میں اِذْ اَرْسَلْنٰهُ : جب بھیجا ہم نے اس کو اِلٰى فِرْعَوْنَ : فرعون کی طرف بِسُلْطٰنٍ : ایک دلیل کے ساتھ مُّبِيْنٍ : کھلی
اور موسیٰ (کے قصے) میں بھی جب کہ ہم نے ان کو بھیجا (رسول بنا کر) فرعون کی طرف ایک کھلی سند (اور دلیل) کے ساتھ
[ 36] قصہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے میں بھی بڑا سامان عبرت و بصیرت ہے۔ سو یاد کرو تم لوگ اس وقت کو کہ جب ہم نے بھیجا فرعون کی طرف کھلی سند کے ساتھ، سو عصا اور یدبیضاء وغیرہ کے کھلے معجزات کے علاوہ آنجناب کی پاکیزہ شخصیت اور پروقار ہستی، جس نے فرعون اور اس کے اعیان و انصار کے دل و دماغ پر ایسا رعب اور دبدبہ قائم کردیا تھا کہ وہ لوگ آنجناب کے خلاف انتہائی غیظ و غضب اور جوش انتقام رکھنے کے باوجود آخر وقت تک آپ (علیہ السلام) پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ کرسکے، مگر وہ لوگ آ کی نشانیوں اور معجزات کو دیکھنے اور جاننے کے باوجود ان کا انکار ہی کرتے گئے، اور اس طرح وہ اپنی محرومی اور روسیاہی میں اضافے ہی کا سامان کرتے گئے، ہیں تک کہ وہ اپنے آخری اور انتہائی ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا ط فانظر کیف کان عاقبۃ المفسدین } [ النمل : 14 پ 19] یعنی ان لوگوں نے حق و ہدایت کی راہنمائی کرنے والی ان نشانیوں کا انکار ہی کیا جب کہ ان کے دلوں میں ان کی صداقت و حقانیت کا یقین موجود تھا۔ محض ظلم و سرکشی کی بنا پر۔ والعیاذ باللّٰہ سبحان اللّٰہ کیسی بڑی طاقت ہے، یہ حق و صداقت کی طاقت اور کس قدر بڑی قوت ہے یہ ایمان و یقین کی قوت، کہ اس کے بعد پھر مغلوبیت اور ناکامی ہے ہی نہیں، اللہ اپنے کرم و احسان سے نصیب فرمائے، اور اس قدر کہ ہم سراپا صدق و یقین بن جائیں، اور ایسے جو جائیں کہ پھر کوئی خوف و خطر اور ضعیف و اندیشہ باقی نہ رہے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین۔ بہرکیف سلطان کا یہ لفظ جو یہاں پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے یہ قرآن حکیم میں واضح سند کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، اور رعب دبدبہ کے معنی میں بھی اور یہاں ان دونوں ہی معنوں پر حاوی اور ان پر مشتمل ہے، کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ کی طرف سے ان دونوں ہی عنایتوں سے نوازا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندے اور اولوالعزم رسول تھے اور اسی تائید غیبی کا نتیجہ تھا کہ فرعون ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکا۔ علی نبینا و (علیہ السلام) ۔
Top