Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 39
فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَ قَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ
فَتَوَلّٰى : تو وہ پھر گیا بِرُكْنِهٖ : اپنی قوت کے ساتھ وَقَالَ سٰحِرٌ : اور کہنے لگا ایک جادوگر ہے اَوْ مَجْنُوْنٌ : یا مجنون ہے
مگر اس نے سرتابی ہی کی اپنے ارکان سلطنت کے ساتھ اور اس نے (پوری رعونت کے ساتھ) کہا کہ یہ شخص یا تو کوئی جادوگر ہے یا دیوانہ
[ 37] فرعون کی سرکشی و سرتابی کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کے باوجود فرعون نے سرتابی ہی کی اپنے ارکان سلطنت کے ساتھ۔ یعنی اپنی سرکشی کی بنا پر اس نے خود بھی ہلاکت و تباہی کے راستے کو اختیار کیا اور اپنے لاؤ لشکر کو بھی اپنے ساتھ تباہی کے گھاٹ اتار دیا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { یقدم قومہٗ یوم اکقیمۃاور دھم النار ط وبئس الورد المورود۔ } [ ھود : 98 پ 12] اس صورت میں یہ باء تعدیہ کی ہوگی۔ جیسا کہ بجانبہٖ میں ہے اور دوسرا مطلب اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے لاؤ لشکر کے بل بوتے پر، اور ان کے گھمنڈ میں راہ حق سے پھر گیا۔ اس صورت میں یہ باسییہ ہوگی [ جامع البیان، مراغی وغیرہ ] سو تکبر اور کفر و انکار پر اڑنا بہرحال باعث ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ ایسے لوگوں کو جتنی بھی ڈھیل ملے اس سے کبھی دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ بہرحال ایک ڈھیل ہی ہوتی ہے جس نے اپنے وقت مقرر پر ختم ہوجانا ہوتا ہے اور ایسے لوگوں نے اپنے انجام کو بہرحال پہنچ کر رہنا ہوتا ہے اور فرعون اور اس کی مثال اس بارے بڑی صاف اور واضح مثال ہے۔ سو سلامتی و نجات کی راہ بہرحال یقین کی راہ ہے۔ کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے اور کوئی مانے یا نہ مانے حق اور حقیقت بہرحال یہی اور صرف یہی ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الی سواء السبیل، فعلیہ نتوکل وبہ نستعین فی کل انٍ وحین، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، [ 38] فرعون کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر سحر اور جنون کے الزام کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اس سے کہا کہ یہ شخص جادوگر ہے دیوانہ " والعیاذ باللّٰہ " یعنی کبھی یہ بات کہتا اور کبھی وہ۔ یا آپ کے معجزات کی بناء پر وہ آپ کو جادوگر کہتا اور دعویٰ توحید و رسالت اور عقیدہ آخرت کی بنا پر مجنون۔ اور اس طرح وہ اپنی قوم کو آنجناب سے بدظن اور متنفر کرنے کی کوشش کرتا، مگر اس سے خود اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت شعار شخصیت کے سامنے وہ ملعون خود ذاتی اور ذہنی طور پر ایک سخت قسم کے تذبذب اور انتشار کا شکار ہوگیا تھا اور اپنے اندر سے وہ چکنا چور ہوگیا تھا۔ اور یہی حال اور نتیجہ ہوتا ہے دعوت حق کی تاثیر اور اس کی کارگزاری کا کہ اس سے کافر اور منکر شخص اندر سے کھوکھلا ہو کر مخبوط لحواس ہوجاتا ہے، اور وہ خطی بن کر حق اور اہل حق کے خلاف کبھی کچھ کہتا ہے اور کبھی کچھ یہاں تک کہ آخر کار وہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتا ہے، والعیاذ باللّٰہ جس طرح کہ دور حاضر کی شیطانی اور فرعونی سپر پارو امریکہ کا حال ہے کہ وہ اپنی محفوظ الحواسی میں اندھا ہو کر افغانستان کے مظلوم مسلمانوں اور وہاں پر طالبان کی سربراہی میں قائم اسلامی حکومت پر وہ رہ مظالم ڈھا رہا ہے کہ ایک دنیا کی دنیا ورطہ حیرت میں ڈوبی ہوئی اور ابگشت بدنداں ہے، اور اس کے بعد ایسا ہی ظلم اس نے عراق پر کیا اور جنگل کے قانون کو اپنا کر اس نے انتہائی ظلم اور سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اور مسلمان اور عرب ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس کی تمام دولت و ثروت اور بہتے سونے یعنی تیل کی دولت پر قبضہ کرلیا اور اب وہ اس کی بندربانٹ میں مصروف ہے اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ وہاں کی حکومت کو نیست کرنے کے بعد اس نے وہاں کے تمام سرکاری محکموں اور حکمومتی اداروں کو بیک جنبش قلم ختم کردیا، جس سے کم و بیش پانچ لاکھ انسان روزگار سے محروم ہوگئے۔ فالی اللّٰہ المشتکی وھو المستعان، اللہم انا نجعلک فی نحورھم، ونعوذبک من شرورھم، اللہم فخذھم اخذ عزیز مقتدر، وانزل بھم باسک الذی لا تردہ عن القوم المشرکین المجرمین۔
Top