Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 48
وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ
وَالْاَرْضَ : اور زمین کو فَرَشْنٰهَا : بچھایا ہم نے اس کو فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ : تو کتنے اچھے بچھانے والے ہیں۔ ہموار کرنے والے ہیں
اور زمین (کے اس عظیم الشان کرے) کو بھی ہم ہی نے بچھایا سو ہم کیا ہی خوب بچھانے والے ہیں1
[ 45] فرش زمین میں غور و فکر کی دعوت : سو ارشاد فرمایا گیا اور زمین کو بھی ہم ہی نے بچھایا سو ہم کیا ہی خوب بچھانے والے ہیں، اور اس عظیم الشان فرش کو بچھایا اس لئے گیا تاکہ اس میں انسان اور حیوان وغیرہ سب ہی رہ سکیں، اور نہایت حیر انگیز طریقے سے ہم نے زمین کے اندر ان تمام مخلوقات کی روزی اور دوسری جملہ ضروریات کا بھی بھرپور طریقے سے انتظام کردیا، اور اس پر حکمت طریقے سے کہ خود انسان کی اور دوسری ان تمام مختلف الانواع مخلوق کی جو کہ طرح طرح سے انسان کے کام آتی ہے، سب کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں، اور یہ سب کچھ انسان کی طرف سے کسی طرح کے سوال اور مطالبے کے بغیر ہم نے ازخود کیا، سو اس سب کے باوجود جو انسان اپنے خالق ومالک سے منہ موڑ کر معصیت و بغاوت کی زندگی بسر کرے، اس سے بڑھ کر ظالم، بےانصاف اور ناشکرا اور کون ہوسکتا ہے ؟ والعیاذ باللّٰہ، بہرکیف اس ارشاد سے تمام دنیا اور خاص کر ارباب فکر و دانش کو اس طرح توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہارے پاؤں تلے بچھا ہوا زمین کا یہ عظیم الشان فرش بھی اپنے اندر عظیم الشان دلائل رکھتا ہے، حضرت خالق حکیم جل جلالہ کی قدرت بےپایاں اس کی حکمت لازوال، اس کی رحمت و عنایت بےمثال اور اس کی وحدانیت مطلقہ کا، سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو جس قادر مطلق اور حکیم مطلق خداوند قدوس کی حکمتوں بھرے اور نعمتوں سے پُر اس کرہ ارض کو پیدا کرکے انسان کے تصرف میں دے دیا، اور وہ اس سے دن رات لگاتار اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہو رہا ہے تو کیا اس سے اس بارے باز پرس نہیں ہوگی اور نہیں ہونی چاہیے ؟ ضرور ہوگی اور ضرور ہونی چاہئے، تاکہ اس طرح اس حکمتوں بھری کائنات کی تخلیق کے مقصد کی تخلیق ہو سکے، ورنہ کارخانہ قدرت عبث اور بیکار قرار پائے گا جو کہ حضرت خالق حکیم کی حکمت مطلقہ کے تقاضوں کے خلاف ہے، پس قیامت کا قائم ہونا ضروری اور عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے۔ تاکہ اس طرح ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کیے کرائے کا بدلہ مل سکے، اور بددرجہ و کمال مل سکے، اور اس طرح تخلیق کائنات کے اصل مقصد کی تکمیل ہوسکے، پس اس یوم عظیم اور اس کے تقاضوں کو پیش نظر رکھنا ہی اصل مقصود اور تقاضا ہے عقل سلیم اور طبع مستقیم کا، کہ اس کے لئے تیاری کا موقع اسی دنیاوی زندگی میں ہے، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل، وھو العزیز الوھاب، [ 46] زمین کے عجائب حکمت و ربوبیت کی طرف اشارہ : چنانچی ارشاد فرمایا گیا کہ ہم کیا ہی خوب بچھانے والے ہیں ؟ کہ اپنی گوناں گوں مخلوق کے لئے حکمتوں اور عبرتوں بھرا اور طرح طرح کی بےحد و حساب نعمتوں سے بھرپور اور آہستہ و پیراستہ ایسا عظیم الشان بچھونا اپنی مخلوق کیلئے اس طرح بچھادیا۔ جس کی دوسری کوئی نظیر و مثال ممکن نہیں۔ فسبحان اللّٰہ من خالق عظیم جلت قدرتہٗ تو کیا یہ سب کچھ عبث اور بےمقصد ہوسکتا ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اس لئے ایک ایسے یوم حساب کا قائم ہونا ضروری ہے جس میں انسان سے اس کے زندگی کے بھر کے کئے کرائے کے بارے میں پوچھ اور اس کا حساب ہو اور وہ اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ اور بدلہ پاس کے، تاکہ جن لوگوں نے حضرت خالق۔ جل مجدہ۔ کی ان عظیم الشان نعمتوں کا حق شکر ادا کیا ہوگا۔ ان کو اس کے بھرپور اجر وثواب سے نوازا جائے، اور جنہوں نے ناشکری کی ہوگی وہ اس کی سزا پاس کیں تاکہ اس طرح عدول و انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں، اور بتمام و کمال پورے ہو سکیں، سو اس کیلئے قیامت کے یوم حساب کا قائم ہونا ضروری ہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے ان عجائب حکمت و ربوبیت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے جو قدرت نے اپنے بےپایاں رحمت و عنایت کے اس بچھونا ارضی میں ودیعت فرما رکھے ہیں۔ سو جس طرح اس قادر مطلق کی قدرت بےنہایت ہے اسی طرح اس کی رحمت و عنایت اور ربوبیت و پروردگاری کی بھی کوئی حدوانتہا نہیں، پس اس کیلئے قیامت کا بپا کرنا نہ کچھ مشکل ہے اور نہ ہوسکتا ہے، بلکہ اس کیلئے محض اس کے ایک حکم و اشارہ کی دیر ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top