Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 49
وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ : اور ہر چیز میں سے خَلَقْنَا : بنائے ہم نے زَوْجَيْنِ : جوڑے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے تاکہ تم لوگ (اس سے) سبق لو
[ 47] قانون تزویج کا حوالہ و ذکر : سو کائنات کی ہر چیز کے جوڑے بنانا قدرت کی عظمت شان کا ایک اور عظیم الشان نمونہ و مظہر ہے۔ اس لئے یہاں پر قانون تزویج کا حوالہ و ذکر فرمایا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا " اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے "۔ یعنی ہم نے اپنی مخلوق میں سے ہر چیز کا ایک ایسا مخالف اور جوڑا بنادیا جو اپنی طبعیت وغایت اور مقصود و مراد کے اعتبار سے دوسرے کے مقابل، اور اس کے برعکس ہوتا ہے، جیسے زمین و آسمان، سردی و گرمی، دن و رات، سیاہ وسفید، بحر وبر، سعادت و شقاوت، نیک و بد، پاک و ناپاک اور نر و مادہ وغیرہ وغیرہ [ ابن جریر، ابن کثیر، مدارک، محاسن، خازن، قرطبی اور مراغی وغیرہ ] مگر اس طور پر کہ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایسی ہر متقابل چیز اپنے دوسرے متقابل اور ضد کے وجود اور اس کے مفہوم کو واضح بھی کرتی ہے، اور اس کے ساتھ مل کر اپنے مقصد وجود کو بھی پورا کرتی ہے، اور اس حد تک کہ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود بےمقصد اور بےکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ جیسے زمین و آسمان کے بغیر، یا رات دن کے بغیر، یا سردی گرمی کے بغیر، وغیرہ وغیرہ۔ سو اس سے جہاں اس کائنات میں خالق ومالک کی قدرت مطلقہ حکمت بالغہ اور وحدانیت مقدسہ کا ثبوت ملتا ہے، وہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آخرت کے اس جہاں اور وہاں کی زندگی کا ہونا بھی ایک لازمی امر ہے، کیونکہ دنیا کا مقابل آخرت ہی تو ہے، تو جس طرح زوجین میں سے ہر چیز اپنے مقاصد وجود کی تکمیل کے لئے دوسری کی محتاج ہوتی ہے، اس کے بغیر اس کی تکمیل نہیں ہوسکتی، اسی طرح آخرت کو مانے اور تسلیم کیے بغیر اس دنیا کے مقصد وجود کی تکمیل نہیں ہوسکتی، لہٰذا آخرت کا وجود اور اس کا عقیدہ رکھنا عقل و نقل اور فطرت سلیمہ سب کا بدیہی تقاضا ہے۔ پس آخرت کے اسی یوم حساب کے تقاضوں کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا ضروری اور مقتضائے عقل و نقل ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب، [ 48] کارخانہئِ قدرت سے درس لینے کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تاکہ تم لوگ سبق لو اور راہ راست کو اپناؤ۔ کہ اس عظیم و بےمثال و کاریگری میں اس کے خالق کا کوئی شریک نہیں، تو اس کی عبادت و بندگی میں خواہ وہ رکوع و سجود کی شکل میں ہو یا قیام و طواف کی شکل میں، یا نذر و نیاز اور غائبانہ نداوپکار کی صورت میں، کوئی اس کا شریک وسہیم کس طرح ہوسکتا ہے ؟ پس معبود برحق وہی وحدہ لاشریک ہے اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل بہرحال اسی کا اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے، کیونکہ یہ سب عبادت و بندگی کی مختلف شکلیں اور صورتیں ہیں، اور عبادت و بندگی کی ہر شکل اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے اس میں کسی اور کو شریک ماننا کھلا ظلم ہوگا، والعیاذ باللّٰہ العظیم نیز کائنات کی ان تمام اشیاء میں تضاد کے باوجود ان کے موجود اور ان کی غرض وغایت کی تکمیل اپنی ضد اور اپنے جوڑے مل کر ہی ہوتی ہے، ورنہ اس کا وجود ہی عبث اور بیکار ہو کر رہ جاتا ہے، اسی طرح اس دنیا کا جوڑا بھی ضروری ہے تاکہ اس کے ساتھ مل کر اس کا خلا پر ہو سکے اور وہ آخرت ہی ہے، سو آخرت کے وجود اور اس کے اعتقاد کے بغیر اس دنیا کا وجود عبر اور بیکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی پناہ میں رکھے۔
Top