Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 3
هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
هُوَ الْاَوَّلُ : وہی اول ہے وَالْاٰخِرُ : اور وہی آخر ہے وَالظَّاهِرُ : اور ظاہر ہے وَالْبَاطِنُ ۚ : اور باطن ہے وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ : اور وہ ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
وہی اول وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی ہے ہر چیز کو پوری طرح جاننے والا
[ 8] وہی اول ہے، سبحانہ وتعالیٰ : ہر چیز سے، کہ جب کچھ نہیں تھا وہ تھا اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں تھا، بحانہ و تعالیٰ ، سو احاطہء قدرت کے ذکر وبیان کے بعد اب یہ اس کے احاطہ علم کا بیان فرمایا ہے س اس کی قدرت بھی کامل اور اس کا علم بھی محیط اور کامل ہے، سبحانہ وتعالیٰ ہر چیز کا آغاز اسی نے فرمایا اور ہر چیز کا وجود اسی کی شان عطا و بخشش کا رہین منت ہے۔ پس سب خالق ومالک اور حاکم و متصرف وہی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ فایاہ نعبدہ فعلیہ نتوکل وبہ نستعین جل جلالہ وعم نوالہ۔ [ 9] اور وہی آخر ہے، سبحانہ وتعالیٰ : کہ وہ جس طرح ہمیشہ سے ہے اسی طرح ہمیشہ کیلئے رہے گا، سو سب سے آخر میں جب کچھ بھی باقی نہ رہے گا وہ موجود ہوگا کہ وہ ازلی و ابدی ہے۔ عزوجل، اسی نے ہر چیز کا آغاز کیا اور اسی کی طرف ہر چیز کو لوٹنا ہے جب کچھ نہیں تھا وہ تھا اور جب کچھ نہیں ہوگا وہ ہوگا اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک ہی کی ہے، اور اسی کی ہوسکتی ہے، اس کے سوا کوئی اور ایسی ہستی نہ ہے نہ ہوسکتی ہے پس معبود برحق بھی اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا، یہیں سے معرفت خداوندی اور عقیدہ توحید کے بارے میں دو اہم اور بنیادی حقیقتیں بھی واضح ہوجاتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت سے سرفرازی کا ذریعہ اس کے اسماء وصفات میں ہیں، اور دوسری یہ کہ قرآن حکیم کے سوا عقیدہ توحید کی دولت اور کہیں سے ملنا ممکن نہیں، کیونکہ ایسی مقدس تعلیمات کا اور کوئی ماخذ ہے ہی نہیں۔ پس جو لوگ اس کتاب حکیم کے نور سے محروم ہیں وہ سراسر اندھیروں میں ہیں، وہ اپنے آپ کو خواہ کچھ بھی سمجھتے ہوں اور علم و ہنر اور روشن خیالی کے کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کرتے ہوں لیکن حق اور حقیقت بہرحال یہی ہے کہ وہ سراسر اندھیروں میں ڈوبے ہوئے اور نور حق و ہدایت سے محروم اور بےبہرہ ہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل زیغ و ضلال۔ [ 10] وہی ظاہر ہے، سبحانہ وتعالیٰ : اپنی قدرت کے آثار و مظاہر کے اعتبار سے، اور اس طور پر اس حد تک کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اور پتہ پتہ اس کے وجود باجود اور اس کی وحدانیت مطلقہ کی پکار پکار کر گواہی دے رہا ہے، جل جلالہ وعم نوالہٗ ، سو یہ کائنات پوری اور اس کے اندر موجود اور پائی جانے والی ہر چیز اپنی زبان حال سے اس کی گواہی دے رہی ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ جیسا کہ کہا گیا۔ وفی کل شیء لہ شاھد۔ یدل علی انہ واحد۔ یعنی ہر چیز میں ایک شاہد اور گواہ موجود ہے جو اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ واحد اور یکتا ہے، نہ اس کی ذا ات وصفات میں کوئی اس کا شریک وسہیم ہوسکتا ہے اور نہ اس کے حقوق و اختیارات میں، اور جیسا کہ کہا گیا کہ ہر گیا ہے کز زمین روید۔ وحدہٗ لاشریک می گوید۔ یعنی ہر پودا جو زمین سے اگتا ہے وہ وحدہٗ لاشریک کہتا ہوا اگتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ [ 11] اور وہی باطن ہے، سبحانہ وتعالیٰ : اپنی حقیقت اور کہنہ ذات کے اعتبار سے، کہ وہ انسانی عقل و ادارک کے احاطہ سے وراء الوراء ہے، سبحانہ وتعالیٰ اور اس کی شان قدس ہے، لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر یعنی نگاہیں اسکا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہی احاطہ کرتا ہے نگاہوں کا، اور وہی ہے انتہائی باریک بین بڑا ہی باخبر۔ اور نبیء اکرم ﷺ نے اس مضمون کی تفسیر اس طرح فرمائی ہے۔ انت الاول فلیس قبلک شیئ، وانت الآخر فلیس بعدک شیئ، وانت الظاھر فلیس فوقک شیئ، وانت الباطن فلیس دونک شیء [ رواہ احمد والترمذی وغیرہ ] یعنی تو ہی پہلا ہے تجھ سے پہلے کوئی نہیں، اور تو ہی آخر ہے تیرے بعد کوئی نہیں، اور " تو ہی " اے ہمارے مالک ! ایسا ظاہر ہے کوئی چیز تجھ سے اوپر نہیں، اور " تو ہی " ایسا باطن ہے کہ کوئی چیز تجھ سے اوجھل نہیں، سبحانہ وتعالیٰ ، سو شان ظہور میں بھی کمال، اور شان خفا میں بھی کمال۔ یہ اسی وحدہٗ لاشریک کی شان بےمثال ہے، سبحانہ وتعالیٰ [ لیس کمثلہٖ شیئٌ وھو السمیع البصیر ] دوسری کوئی ہستی ایسی نہ ہے نہ ہوسکتی ہے جو اس شان اقدس اوعلیٰ کا کوئی شمہ بھی اپنے اندر رکھتی ہو، پس معبود برحق وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ [ 12] اللہ تعالیٰ کے کمال علم کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور وہی ہے جو چیز کو پوری طرح جانتا ہے، اور اس کے سوا اور کوئی اگر کسی چیز کو جانے گا بھی تو اس صرف کے ظاہری اور مادی پہلو کے اعتبار ہی سے جانے گا، اور وہ بھی اس کے کچھ ہی پہلوؤں کے لحاظ سے اور بس۔ ارشاد ہوتا ہے { یعلمون ظاھراً من الحیوۃ الدنیا وھم عن الاخرۃ ہم غفلون } [ الروم : 7 پ 21] یعنی لوگ دنیاوی زندگی کے ظاہری پہلو ہی کو جانیں گے اور یہ آخرت سے غافل اور بیخبر ہیں، جبکہ وہ ہر چیز کو اس کے ظاہرو باطن اور حال ومآل ہر اعتبار سے جانتا ہے اور ایک برابر جانتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ، سو ہر چیز کو جاننا اور ہر اعتبار سے اور پوری طرح جاننا اسی وحدہٗ لاشریک کی شان امتیاز اور صفت انفراد ہے دوسری کوئی بھی ایسی ہشتی نہ کبھی ہوئی ہے نہ ہوسکتی ہے جو ہر چیز کو ہر اعتبار سے جانتی ہو اور یہ اس لیے کہ وہی ہر چیز کا خالق اور موجد ہے اور خالق کا اپنی مخلوقات میں سے ہر چیز کو جاننا اور اس کے ہر پہلو سے اور پوری طرح جس نے پیدا کیا جبکہ وہ بڑا ہی باریک بین اور پوری طرح باخبر ہے ؟ " پس اس سے کوئی بھی چیز مخفی نہیں ہوسکتی، سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top