Tafseer-e-Haqqani - Al-Qalam : 21
وَ فِیْ مُوْسٰۤى اِذْ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ
وَفِيْ مُوْسٰٓى : اور موسیٰ میں اِذْ اَرْسَلْنٰهُ : جب بھیجا ہم نے اس کو اِلٰى فِرْعَوْنَ : فرعون کی طرف بِسُلْطٰنٍ : ایک دلیل کے ساتھ مُّبِيْنٍ : کھلی
نوح نے کہا اے میرے رب انہوں نے میرا کہنا نہ مانا اور اس کو مانا کہ جس کو اس کے مال اور اولاد نے نقصان کے سوا کچھ بھی فائدہ نہیں دیا
ترکیب : انہم الجملۃ مفعول قال ‘ من مفعول اتبعوا والضمیر فاعلہ قریٔ ولدہ بفتح الواو واللام وبضم الواو و سکون اللام وھما سبعی بتان وقریٔ بفتح الاول و سکون الثانی وھی نعۃً وقیل جمع الولد۔ کبارا قرء الجمہور بالتشدید ای کبیر اعظیما کقراء وحمال قال المبرد الفعال للمبالغۃ وقری بکسر الکاف وتخفیف الباء ھو جمع کبیر ود قرء الجمہور بفتح الوا ووقریٔ بضمھما قال اللیث بضم الواؤ صنم لقریش وبفتحہا صنم کان لقوم نوح و فی الصحاح الود بالفتح الوتد فی لغۃ اہل نجد کانھم سکنوا التاء وادغموھا فی الدال سواعاً ھما منصرفان یغوث و یعوق عندالجمہور غیرمنصرفین فان کان عربیین فللعلمیۃ ووزن الفعل وان کان عجمیین فللعجمۃ والعلمتیہ و قری منصرفین للتناسب بماقبلھا۔ ولاتزدا لظالمین معطوف علی رب انہم عصونی وقال ابوحیان انہ معطوف علی قداضلوا و معنی الضلال الخسران والعذاب۔ تفسیر : حضرت نوح (علیہ السلام) نے دلائل بھی قائم کئے پھر بھی اس کم بخت قوم نے خدا پاک کی طرف رجوع نہ کیا اور کوئی امید ان کی ہدایت کی باقی نہ رہی تب ناامید ہو کر بارگاہ الٰہی میں یوں عرض کرنے لگے قال نوح رب انہم عصونی کہ یا رب ان لوگوں نے میرا کہا نہ مانا واتبعوا من لم یزدہ مالہ وولدہ الاخسارا اور ان ناپاک اور گمراہوں کے تابع ہوگئے کہ جن کے مال اور اولاد نے بجائے فائدہ آخرت کے ان کو اور نقصان دیا آل اور اولاد کی افزائش سے اور بھی سرکشی و گمراہی میں پڑگئے اور اترا گئے اور سمجھنے لگے کہ ہم جس طریقے پر ہیں وہی برحق ہے کس لیے کہ اگر برحق نہ ہوتا تو پھلتے پھولتے نہیں یہ شخص ناحق کی بک بک کیا کرتا ہے۔ فائدہ : خدا کی پناہ انسان بدکاری پر بدکاری و بت پرستی کرے اور خدا کی طرف سے اس کو کوئی روکنے والی سزا نہ ملے اور وہ افزائشِ مال اور اولاد میں ترقی کرتا جائے پھر وہ تو اپنے طریقہ کو کبھی برا نہیں سمجھے گا بلکہ اور بھی دل کھول کر کرے گا اور مغرور ہوتا جائے گا۔ یہ بڑا فتنہ اور آزمائش ہے۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ بت پرست و بدکار قومیں کس طرح سے پھولتی پھیلتی ہیں۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے لیے دنیا یا آخرت میں کوئی سخت عذاب تیار ہے۔ ومکروامکرا کبار اور بڑے مکروفریب کئے۔ کہیں ان بتوں اور ہیاکل کی پرستش کی عجیب دلیلیں بنا رکھی تھیں اور بحث میں ہارتے نہ تھے۔ کمینوں اور لچوں شہدوں کو لالچ دے کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی توہین و ایذا پر آمادہ کیا اور انہوں نے کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ وقالوا لاتذرن الہتکم اور بڑی دلیری سے ان کے سرداروں نے کہہ دیا کہ خبردار اپنے معبودوں کو اس شخص کے کہنے سے نہ چھوڑنا۔ ولاتذرن وواً ولاسواعاً ولایغوث ویعوق ونسرا خصوصاً ان پانچ معبودوں کو تو ہرگز نہ چھوڑنا، ود کو، سواع کو، یغوث کو، یعوق کو، نسر کو۔ 1 ؎ 1 ؎ مشہور یہ ہے کہ پانچ نیک آدمی تھے جو آدم و نوح (علیہم السلام) کے وسطی حصہ میں تھے بوجہ ان کی نیک بختی کے عامہ الناس ان پر اعتقاد رکھتے تھے۔ مرنے کے بعد لوگوں نے ان کے بت بنا کر پرستش شروع کردی۔ صاحب مواہب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ودمرد کی صورت کا بت تھا اور سواع عورت کی صورت اور یغوث بصورت بیل اور یعوق بصورت گھوڑا اور نسر بصورت گدھ۔ طوفان میں یہ سب بت غرق ہوگئے تھے مگر ابلیس نے ان بتوں کو نکال کر عرب کو ان کی پرستش پر مامور کیا۔ چناچہ عرب کی پانچ جماعتیں ہوگئیں اور ہر ایک جماعت نے ایک بت اپنے لیے خاص کرلیا چناچہ قضاء نے ود اختیار کیا اور ہذیل نے سواع اور قبیلہ اعلیٰ و ادنیٰ نے یغوث کی پرستش شروع کی اور ہمدان نے یعوق کی اور حمیر نے نسر کی یہاں تک تمام عالم پر ظلمت کی گہری گھٹائیں چھا رہی تھیں کہ فاران کی چوٹیوں سے اس نور محمدی کا ظہور فرمایا اور ایک عالم کو مشرق سے مغرب تک روشن ومنور کیا۔ 12 منہ فائدہ 2 : دنیا میں جب حضرت آدم (علیہ السلام) آئے اور ان کی اولاد پھیلی اس کے ساتھ ہی شیطان نے بھی قابو پایا۔ تھوڑے ہی زمانے بعد حضرت کی اولاد میں بدکاری اور جو روجفا نے رواج پانا شروع کیا۔ قوت بہیمیہ اور قوت غضبیہ نے اپنا جلوہ دکھایا اور فرشتوں کا من یفسد فیہا ویسفک الدماء کہنا صادق آیا۔ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو مار ڈالا۔ شیطان کا اثر اول انہیں دونوں قوتوں پر ہوا کرتا ہے اس کے بعد قوت عملیہ میں بھی ان کے ظلمات سے خلل ڈال دیتا ہے۔ پھر سینکڑوں توہمات باطلہ علمی حقیقی قرار پا جاتے ہیں۔ صابیہ کا حدوث : شدہ شدہ توہمات و تخیلات کی پرستش بھی شروع ہوگئی اور اس وادی جہالت میں ٹکریں مارتے مارتے ایک باقاعدہ مخلوق پرستی بھی شروع ہوئی اور ایک جدید مذہب کی بنیاد پڑگئی جو صابیہ 2 ؎ کے نام سے مشہور تھا۔ 2 ؎ یقال صبا الرجل اذامال وزاغ فیز یغھم عن طریق الحق یقال لھم الصابیۃ وقدیقال صبا الرجل اذاعشق وھوا۔ یہ فرقہ اپنے تئیں عاذیمون و ہرمس (ادریس علیہ السلام) (ا) کا پیرو کہتا تھا اس کا حدوث عہد طہمورث میں بیان کرتے ہیں۔ طہمورث ہوشنگ کا جانشین ہے اور ہوشنگ کیومرث کا جس کو پارسی آدم (علیہ السلام) کہتے ہیں۔ یہ فرقہ ایشیائِ کو چک اور شام اور عراق میں ظاہر ہوا تھا۔ یہ ہمیشہ سے فریق انبیاء کا منکر تھا اور فریق متبع انبیاء (علیہ السلام) حنفیہ اور اس کے پیروحنفا کہلاتے تھے۔ اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) کو حنیف اس فرقہ صابیہ کے مقابلہ میں کہا گیا اور قرآن مجید میں اکثر جا اس لفظ کا انہیں معنی میں استعمال ہوا ہے جس سے مراد بت پرستی سے یکسو ہونا ہے اور بت پرستی فریق صابیہ کے اصول میں داخل ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد میں اس فریق صابیہ کا عراق میں بہت زور تھا اور انہیں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقابلہ ہوا تھا۔ 12 یہ فرقہ بقول بعض مؤرخین طہمورث کے اول سال جلوس میں پیدا ہوا ان کا یہ مذہب تھا کہ بیشک اس جہان کا ایک پیدا کرنے والا ہے جو تمام حدوث کے دھبوں سے پاک ہے اور وہ حکیم بھی ہے اور ہم اس کے جلال تک بغیر واسطے کے پہنچ نہیں سکتے اس لیے ہم کو ان وسائط سے کام پڑا جو اس کے ہاں مقرب ہیں اور وہ روحانیات ہیں (اس لیے اس فریق کو اصحاب الروحانیات بھی کہتے ہیں) اور وہ اپنے جوہر اور افعال و حالت میں پاک ہیں جوہر میں۔ اس لیے کہ وہ مواد جسمانیہ و قوائے جسدانیہ و حرکات مکانیہ و تغیرات زمانیہ سے پاک ہیں وہ طہارت پر مجہول اور تسبیح و تقدیسِ الٰہی پر مفطور ہیں۔ پس یہ ہمارے رب اور سفارشی ہیں وہ رب الارباب ہے یہی ہماری حاجات کا پورا سامان کرتے ہیں اور افعال میں یوں کہ ایجاد و اختراع میں اور تبدل حالات میں اور مخلوقات کو کمال تک پہنچانے میں یہی واسطہ ہیں۔ حق سبحانہ ٗ کی طرف سے قوت حاصل کر کے موجودات سفلیہ تک پہنچاتے ہیں پھر کچھ ان روحانیات میں سے سات ستاروں کے مدبر ہیں اور یہ ستارے ان کے لیے ہیکل ہیں جیسا کہ ارواح انسانیہ کے لیے ان کے ابدان اور ہر ایک روحانی کے لیے ایک ہیکل ہے اور ہر ہیکل ایک آسمان میں ہے اور کچھ روحانیات کے آثار علویہ کے مدبر ہیں جو زمین اور آسمان کے درمیان ظاہر ہوتے ہیں اور کچھ ان قوتوں پر مؤکل ہیں جو تمام مخلوقات میں پائی جاتی ہیں اور کچھ ہدایت کے لیے اور کچھ ہلاکت کے لئے۔ غرض ہر کام کے لیے وہی وسائط ہیں اور حالت ان کی یہ ہے کہ وہ قرب الٰہی میں خوش و خرم ہیں۔ ان کا کھانا پینا تسبیح و تقدیس ہے۔ کوئی رکوع میں ہے ‘ کوئی سجدے میں ہے۔ وہ جو حق سبحانہ ٗ فرماتا ہے وہی کرتے ہیں۔ طریق عبادت ان کا یہ ہے ستاروں اور بتوں کی پرستش کرنا، نذر و نیاز چڑھانا، بخور جلا کر وہ منتر و عزائم پڑھنا جن میں ان ستاروں آفتاب، ماہتاب، زہرہ، مشتری، زحل، عطارد، مریخ اور بتوں کی بےحد مدح اور اپنی عاجزی ہوتی ہے اور پھر ہر ایک ستارہ کی پرستش کے بڑے بڑے دستورات ہیں۔ پھر صابیہ کے دو فریق ہوگئے اصحاب الہیا کل یعنی ستاروں کے پوجنے والے، ہر ستارہ کا مندر اس کے اوقات مخصوصہ میں مع رعایت اقلیم و دیگر شروط بنا رکھے تھے رومیوں نے جو پیٹر کا مندر یعنی مشتری کا اور اسی طرح ڈینس یعنی زہرہ کا بنایا تھا۔ دوسرے اصحاب الاشخاص کہ انہوں نے ستاروں کے خواص و آثار کے لحاظ سے مورتیں بنائیں، کسی کی بہادری کے لحاظ سے شیر کی ‘ خوبصورتی کے لحاظ سے حسین عورت کی اور وہ پھر ان مورتوں کو پوجنے لگے اور نیز ان مورتوں کے جواہر میں بھی ستاروں کی رعایت ہوتی تھی، کسی کو لوہے کا کسی کو تانبے کا کسی کو پیتل کا ڈھالتے تھے۔ یہ بت جو قوم نوح (علیہ السلام) میں تھے غالباً انہیں سیارات کے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد میں پھر اس فرقہ کا زور ہوگیا تھا پھر پارسیوں اور اہل ہند و یونان و روم میں بھی صابیت نے زور کیا اور ہر ملک میں اس پر نئی قلعی چڑھی۔ اگر رگوید کے حصہ اول کو ملاحظہ کریں گے تو اس میں انہیں ارواح اور عناصر اور جنوں کی مدح کے منتر پائیں گے اور پھر ان کی پرستش اور پاٹ کے طریقے ہیں اور کچھ ان کے پوجنے والوں کے لیے جو جو مددیں پہنچیں ان کے جھوٹے سچے مبالغہ آمیز قصے ہیں۔ اسی طرح دساتیر میں ستاروں کی پرستش اور ان کی دعائیں مذکور ہیں۔ ستاروں کی پابندی اور ان سے سعادت و نحوست کا تعلق اور نیرنجات و شعبدے اور فال گنڈے اور دیگر توہمات باطلہ اسی فرقہ کے آثار ہیں۔ عرب میں بھی صابیت آئی تھی گو وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف منسوب ہونے کے سبب صابیت کو برا جانتے تھے۔ حنفاء کا طریق جو سلسلہ انبیاء (علیہم السلام) ہے ہمیشہ صابیت کا رد کرتا آیا ہے اور یہ بتلاتا رہا ہے کہ گو ملائکہ عالم کے تدبیر و تصرف میں اس کے حکم سے مصروف ہیں مگر وہ یا اور کوئی سیارہ وغیرہ جز حق سبحانہ ٗ کے نفع و ضرر نہیں دے سکتا ہر حال میں اسی کی پرستش ‘ اسی کی نذر و نیاز ‘ اسی سے مدد مانگتا ‘ اسی کو پکارنا لازم ہے اور دوسرے کو اس کے اقتدار الوہیت میں ملانا شرک ہے۔ جو اکبر الکبار ہے۔ محمدیت کا اصل منشاء توحید ہے۔ مگر افسوس تابع انبیاء میں بھی اجنبیوں کی صحبت سے صابیت نے اثر کرلیا۔ 12 منہ فائدہ 3: دنیا میں بت پرستی کا ایک تو یہی سبب ہے جو بیان ہوا اس کے سوا اور اسباب بھی ہیں۔ ازانجملہ یہ کہ خدا تعالیٰ کو ایک مجسم چیز تصور کرلیا اور یہ خیال کیا کہ ملائکہ اس کے تخت کے اردگرد کھڑے ہیں اسی خیال باطل کے مطابق انہوں نے حق سبحانہ ٗ کی بلند مورت بنائی اور چھوٹی چھوٹی ملائکہ کی اور اس کا دھیان دھرنے کے حیلہ سے انہیں مورتوں کو پوجنے لگے۔ ازانجملہ یہ کہ جو دنیا میں نیک اور نامور یا صاحب کرامات لوگ گزرے ہیں ان کی یادگار میں پہلے لوگوں نے تانبے پیتل لوہے پتھر کے بت ان کی شبیہ پر تراشے۔ بعد میں جہل بڑھتا گیا، انہیں کو پوجنے لگے اور ان کے نام کی من گھڑت مورتیں بنانی شروع کردیں۔ شبیہ کا بھی قاعدہ ملحوظ نہ رہا۔ ازانجملہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو محبوس اشکال میں ایک مناسبت خاصہ سے ڈھالا اس لیے ہر ایک صفت کی جدا مورت بنائی اور بابرکت اور اہل قدرت اشخاص کی نسبت کہ جن کو اپنی فہم میں معمولی درجے کی قدرت و طاقت سے زیادہ سمجھتے تھے یہ خیال کیا کہ ان میں خدا تعالیٰ گھس گیا اور ان بےچون و بےچگوں نے اس پیکر انسانی یا نباتی یا حیوانی یا علوی میں ظہور کیا تو اسی کو معبود حقیقی سمجھ کر پرستش کرنے لگے۔ ہنود کا اوتاروں اور عیسائیوں کا حضرت مسیح (علیہ السلام) کی نسبت یہی اعتقاد ہے اور اس لیے انہوں نے ان اوتاروں کی مورتیں بنائیں اور پوجنے لگے اور کہنے لگے ان مورتوں کی پرستش در اصل ان کی پرستش ہے کہ جن کی یہ مورتیں ہیں اور ان کی پرستش عین حق تعالیٰ کی پرستش اور باعث نجات ہے۔ یہ قوت متوہمہ کا ضلال مبین ہے۔ برہمابشن، مہادیو کو اس کی صفت کا مظہر جان کر پرستش کرتے ہیں۔ اسی طرح عناصر و سیارات و نباتات و حیوانات میں سے اہل ہند نے کوئی چیز نہیں چھوڑی کہ اس کو پوجتے نہ ہوں۔ فائدہ 4: ودیہ محبت و خواہش کا بت تھا اس معنی کو ظاہر کرنے کے لیے اس کو مرد کی صورت میں ڈھالا تھا اور اسی کو تمام کائنات کا باعث ایجاد جانتے تھے کہ حق سبحانہ ٗ تعالیٰ کی محبت و خواہش ہوئی کہ میں ظاہر ہوں اس لیے اس نے دنیا پیدا کی اور مرد کی صورت اس لیے بنائی کہ مرد کے دل میں عورت کی محبت ورغبت ہوتی ہے اور ہندو اس مظہر کو برہما کہتے ہیں۔ سواع کے معنی قائم کرنے اور ٹھہرنے کے ہیں شرع میں اس کو صفت قیومیت کہتے ہیں۔ یہی صفت بقائیِ عالم کا باعث ہے اس معنی کو عورت کی شکل میں متشکل کیا۔ (رح) اس لیے کہ خانہ داری و انتظام خانگی سب عورت کی ذات سے ہے۔ ہندو اس صفت کو بشن سے تعبیر کرتے ہیں اور انہوں نے بھی اس کو ایک صورت و مورت بنا رکھی ہے۔ یغوث (غوث بمعنی مدد کے) حاجت روائی و مشکل کشائی کی صفت کا بت گھوڑے کی تصویر میں بنا رکھا تھا۔ اس لیے کہ گھوڑا جلد دوڑ کر آتا ہے اس لحاظ سے کہ یہ بت اپنے پوجنے والوں کی مدد کو جلد آتا ہے۔ اہل ہند اس کا مظہر اندردیوتا کو بتاتے ہیں۔ یعوق عوق روکنے اور مصائب و اعدا کے دفع کرنے کی صفت اس کا بت بشکل شیر بنا رکھا تھا کہ یہ بہادر جانور دشمنوں پر بڑا حملہ کرتا ہے۔ اہل ہند اس کا مظہر شیو بتاتے ہیں۔ نسر گدھ یہ صفت سرمدیت کا بت بشکل گدھ اس لحاظ سے بنایا تھا کہ گدھ کی بھی بڑی عمر ہے۔ اور بھی ہر ایک خیال سے بت اور آلہء باطلہ تھے مگر ان پانچوں پر تو مٹے ہوئے تھے اس لیے بالخصوص ان کی بابت تاکید کی کہ ان کو نہ چھوڑنا۔ اور بت پرستی کی یہ توجیہات جیسا کہ ہنود کرتے ہیں مکر عظیم تھا جس کے سبب قد اضلوکثیرا ہزاروں بندگان خدا کو گمراہی میں ڈال دیا تھا۔ خدا پاک کو چھوڑ کر انہیں مظاہر کی پرستش میں اٹک کر رہ گئے اس تک رسائی نہیں ہوئی۔ فائدہ 5: طوفان کے بعد یہی پانچوں بت جو حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم میں پجتے تھے آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے سے پہلے تک قبائل عرب میں بھی پجتے تھے۔ بخاری نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ قوم نوح کے بت عرب میں بھی پوجے جایا کرتے تھے۔ ود دومۃ الجندل میں قبیلہ کلب کا بت تھا اور سواع ہذیل کا یغوث مراد کا پھر بنی غطیف کا اور یعوق ہمدان کا اور نسر حمیرآل ذی الکلاع کا بت تھا۔ یہ اس قوم کے نیک لوگوں کے نام ہیں۔ جب وہ مرگئے تو شیطان کے کہنے سے ان کے نام کے بت بنا کر پوجنے لگے۔ ان کے علاوہ عرب کے اور بھی بت تھے۔ لات بنی ثقیف کا اور عزیٰ بنی سلیم و بنی غطفان و بنی نظروبنی سعد و بنی بکر کا بت تھا اور منات اہل قدید و مشلل کا بت تھا اور اہل مدینہ بھی ان کی زیارت کو جایا کرتے تھے۔ اساف و نائلہ و ہبل اہل مکہ کے بت تھے۔ اساف کو حجر اسود کے سامنے کوہ صفا پر کھڑا کر رکھا تھا اور نائلہ کو رکن یمانی کے سامنے اور ہبل کو کعبہ کے اندر۔ یہ بڑا قدآور آٹھ گز کا اونچا بت تھا۔ جنگ کے وقت اسی کا نام پکارتے تھے۔ ابوسفیان نے احد کی لڑائی میں پکارا تھا۔ اعل ہبل جس کے جواب میں حضرت عمر ؓ نے کہا اللہ اعزواجل۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) بالکل ناامید ہوگئے تو اس ناپاک قوم کی نسبت یہ بددعا کی۔ ولاتزد الظالمین الاضلالا کہ یہ ظالم اور بھی گمراہی میں بڑھیں کہ جلد عذاب آ کر تمام ہوجائیں یا یہ معنی کہ ان پر عذاب نازل ہو کس لیے کہ ضلال کے معنی ہلاکت و تباہی کے بھی ہیں۔ (کے دو فریق تھے۔ ایک اصحاب ہیاکل یعنی ستاروں کی شکل و صورت کو ان کی روحانیت کا مظہر جان کر پرستش کرتے تھے۔ دوسرے اصحاب اشخاص جو ان چیزوں کی مورتیں پوجا کرتے تھے۔ یہ پانچ بت بھی اسی قسم سے تھے۔ )
Top