Tafseer-e-Madani - Al-Qalam : 36
مَا لَكُمْ١ٙ كَیْفَ تَحْكُمُوْنَۚ
مَا لَكُمْ : کیا ہے تم کو كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ : کیسے تم فیصلے کرتے ہو
تمہیں کیا ہوگیا تم لوگ کیسا فیصلہ کرتے ہو ؟3
28 ۔ جزا و سزا عقل و فطرت کا تقاضا : سو منکرین کے ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے ان سے فرمایا گیا کہ کیا ہوگیا تم لوگوں کہ تم کیسا فیصلہ کرتے ہو ؟ جو کہتے ہو کہ آخرت وغیرہ کچھ نہیں جو کچھ نہیں جو کچھ ہے یہ دنیا ہی دنیا ہے اور اگر بالفرض آخرت ہوئی بھی تو ہمارے لئے وہاں بھی اچھائی اور کامیابی ہے ولئن رددت الٰی ربی لاجدن خیرا منھا منقلبا واضح ہے کہ یحکمون حکم سے ماخوذ ہے جس کے معنی فیصلہ کرنے کے آتے ہیں اسی لئے عربی میں عدالت (Court) کو محکمہ کہا جاتا ہے، یعنی فصلہ کرنے کی جگہ، اور اس کی جمع محاکم آتی ہے، سو اس سوال و استفہام کا حاصل و مدا یہ ہے کہ عدل و انصاف اور عقل و خرد اور فطرت انسانی کا تقاضا یہ ہے کہ نیک و بد اور مجرم و فرمانبردار میں سے ر ایک کو اپنے کئے کرائے کا بھرپور صلہ وثمرہ ملے، تاکہ حق و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں اور اس دنیا میں اسا نہ ہوتا ہے نہ ہوسکتا ہے کیونکہ اول تو یہ دنیاوی زندگی میں انسان کے کئے کرائے کا فیصلہ آخرت ہی میں ہوسکتا ہے اور وہیں ونا چاہئے اور دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کی اس فرصت محدود میں نیک یا بد کسی کو بھی اس کے عمل کا پورا بدلہ مل سکتا بھی نہیں، کیونکہ دنیا میں مثلاً ایک شخص وہ ہے جو بذات خود ایمان و عمل کی دولت سے بہرہ مند ہے اور بس، اور ایک وہ ہے جس نے دوسرے بہت سوں کو بھی اس دولت ایمان و عمل سے بہرہ ور کیا ہوگا، تو ان دونوں کو ان کے حسب حال پورا صلہ و بدلہ اس دنیا میں کس طرح مل سکتا ہے ؟ دوسری طرف ایک شخص نے مثلاً ایک شخص کو قتل کیا تو اس کے بدلے میں اس کو بھی قتل کردیا گیا، تو بعض صورتوں میں یہ اگرچہ بدل ہوجاتا ہے مگر جس نے دس بیس یا اس سے بھی کہیں زیادہق تل کئے ہوں اور جیسا کہ ظالم اور سفاک لوگ کرتے ہیں پہلے بھی ایسے ہوتا رہا اور آج بھی ہو رہا ہے، تو اس کا بدلہ یہاں کس طرح ممکن ہوسکتا ہے ؟ سو دنیا کے اس ظرف محدود میں ہر کسی کے لئے اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا بدلہ ممکن ہی نہیں، لہٰذا قیامت کا قائم ہونا عقل و فطرت کے تقاضوں کے مطابق نہایت ضروری اور ناگزی ہے، تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے بھرپور طریقے سے پورے ہو سکیں، سو منکرین کا انکار عقل و نقل اور تقاضائے فطرت کے خلاف ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم
Top