Tafseer-e-Madani - Al-Qalam : 39
اَمْ لَكُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَةٌ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۙ اِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُوْنَۚ
اَمْ لَكُمْ : یا تمہارے لیے اَيْمَانٌ : کوئی عہد ہیں۔ قسمیں ہیں عَلَيْنَا : ہم پر بَالِغَةٌ : باقی رہنے والی اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن تک اِنَّ لَكُمْ : بیشک تمہارے لیے لَمَا تَحْكُمُوْنَ : البتہ وہ ہے جو تم فیصلہ کرو گے
یا تمہارے لئے ہمارے ذمے کوئی ایسی قسمیں ہیں قیامت تک پہنچنے والی (اس مضمون کی) کہ بلاشبہ کہ تمہیں ضرور وہی کچھ ملے گا جس کا فیصلہ تم کرتے ہو ؟
30 منکرین کے غرور پر ایک ضرب : سو منکرین کے غرور پر ایک اور ضرب لگانے کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تمہارے لئے ہمارے ذمے اس طرح کے کوئی عہد ہیں کہ تمہیں وہی کچھ ملے گا جو تم چاہو گے ؟ اور ظاہر ہے کہ یہ صورت بھی نہیں، ہمارے ذمے تمہاری لئے ایسی کوئی عہد و پیمان نہ ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس اصل حقیقت یہ ہے جس کو طرح طرح سے واضح کیا گیا ہے کہ ہواں پر اصل فیصلہ انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر ہوگا، تو پھر تم لوگ آخر کیوں اس طرح کے مغالطوں کا شکار ہو اور تم کیوں طرح طرح کی گمراہیوں میں غلطاں و پیچاں ہو ؟ تمہیں ناز کس چیز کا ہے ؟ اور کس اساس و بنیاد پر تم لوگ اس طرح کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کہ تم جو کچھ کرتے ہو ٹھیک کرتے ہو، نہ دنیا میں تمہیں کوئی تمہاری جگہ سے ہلا سکتا ہے اور نہ آخرت میں تمہاری کوئی مسؤلیت اور باز پرس ہونے والی ہے، سو باز آجاؤ تم لوگ اس طرح کی خوش فہمیوں سے اور اصلاح کرلو اپنی قبل اس سے کہ اس کا موقع تمہارے ہاتھوں سے نکل جائے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم سے اس طرح کا کوئی عہد نہیں کیا جو قیامت تک اور غیر مشروط ہو کہ وہ چونکہ فلاں ابن فلاں کا شرف رکھتی ہے۔ پس وہ جو چاہے کرے۔ اس کے لئے جنت الاٹ ہے۔ سو ایسا نہ ہے نہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں دارین کی فوز و فلاح ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار سے مربوط ہے۔ اس کے سوا لوگوں نے جو مختلف مفروضے از خود کھڑے کر رکھے ہیں وہ سب من گھڑت اور بےبنیاد ہیں ‘ جن کی بناء پر تم لوگ خود ہلاکت و تباہی اور محرومی و بدبختی کی راہ پر چل رہے ہو ‘ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشح اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ‘ آمین ثم آمین۔
Top