Tafseer-e-Madani - An-Naba : 40
اِنَّاۤ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا١ۖۚ۬ یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ وَ یَقُوْلُ الْكٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ تُرٰبًا۠   ۧ
اِنَّآ اَنْذَرْنٰكُمْ : بیشک ہم نے، خبردار کیا ہم نے تم کو عَذَابًا قَرِيْبًا ڄ : قریبی عذاب سے يَّوْمَ يَنْظُرُ : جس دن دیکھے گا الْمَرْءُ : انسان مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ : جو آگے بھیجا اس کے دونوں ہاتھوں نے وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ : اور کہے گا کافر يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش کہ میں كُنْتُ تُرٰبًا : میں ہوتا مٹی/خاک
ہم نے تو تمہیں پوری طرح خبردار کردیا ہے (اے لوگو ! ) ایک ایسے ہولناک عذاب سے جو کہ قریب ہی آلگا ہے، جس روز آدمی دیکھ لے گا وہ سب کچھ جو کہ آگے بھیجا ہوگا اس کے ہاتھوں نے (اپنی زندگی کی فرصت میں) اور کافر (اس روز) کہے گا (اور ہزار حسرت و افسوس کے ساتھ کہے گا
(35) عذاب قریب سے انذار و آگہی کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور منکرین کے لیے آخری تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ بلا شبہ ہم نے خبردار کردیا تم سب لوگوں کو قریب آلگنے والے عذاب سے۔ نصح و خیر خواہی کے ہر پہلو اور ہر اعتبار سے تاکہ تم لوگ بچ سکو برے انجام سے، قبل اس سے کہ فرصت حیات تمہارے ہاتھ سے نکل جائے، اور تم لوگوں کو ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہونا پڑے، آگے ماننا نہ ماننا تمہارے اپنے ارادہ و اختیار پر موقوف ہے، اگر صدق دل سے اس کو مان کر اس عذاب قریب سے بچنے کی فکر وسعی کروگے، قبل اس کے کہ فرصت حیات تمہارے ہاتھوں سے نکل جائے، پس ایمان و اطاقت میں تو تمہارا اپنا ہی بھلا ہوگا ورنہ تم خود دائمی نقصان و خسران میں جا پڑو گے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس سے منکرین کو آخری تنبیہ فرما دی گئی کہ ہم نے تم لوگوں کو اس عذاب سے خبردار کردیا ہے جو قریب ہی آلگا ہے۔ اب بھی جو لوگ اس کو نہیں مانیں گے اور اس کی پروا نہیں کریں گے وہ اپنے ہولناک انجام کے ذمہ دار خود ہوں گے۔ کیونکہ اس کے بعد ان کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے آمین۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا اور اس عذاب قریب سے انذار و آگہی کے طور پر ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلا شبہ ہم نے تم لوگوں کو خبردار کردیا ایک قریب آلگنے والے ہولناک عذاب سے۔ کہ اس نے بہرحال آکر رہنا ہے اور آنیو الی ہر چیز بہرحال قریب ہی ہوتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی دور کیوں نہ ہو، جیسا کہ کہا جاتا ہے " کل ما ھو ات قریب "۔ دوسرے اس اعتبار سے بھی کہ تمہاری آخرت اور قیامت تو تمہاری اپنی موت ہی ہے، اور وہ ہر کسی کے سر پر کھڑی ہے، کوئی نہیں جانتا کہ وہ اس کو کب، کہاں، اور کیسے آدبوچے، اور اس طرح اس کو اس دنیا سے کوچ کرنا پڑجائے، اس لیے اس کو ہر وقت اور ہر طرح سے اپنے اس انجام اور آخرت کے لیے تیار رہنا چاہیے اور تیسرا پہلو اس عذاب کے قریب ہونے کا ایک اور ہے اور وہ یہ کہ انسان کا احساس اور اس کی فیلنگ (Feeling) جو بھی کچھ ہے وہ سب اسی دنیاوی زندگی تک ہے اور بس۔ اس کے بعد اس کو کچھ پتہ نہیں ہوگا کہ کتنا زمانہ اس پر گزر گیا یہاں تک کہ وہ جب مدتوں قبر میں رہنے کے بعد حشر میں اٹھے گا تو حیرت زدہ ہو کر کہے گا ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا۔ قَالُوا یَا وَیْْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ہَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ ( یس 52 پ 23) سو یہ لوگ تو اپنی غفلت و لاپرواہی کی بنا پر اس کو بڑا دور سمجھ رہے ہیں لیکن ہم اس کو بڑا قریب دیکھ رہے ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا إِنَّہُمْ یَرَوْنَہُ بَعِیْداً ۔ وَنَرَاہُ قَرِیْباً ( المعارج 6، 7 پ 29) اور اس عذاب قریب کے مختلف نمونے ہم اس دنیا میں خود دیکھتے ہیں اور دن رات دیکھتے ہیں اور جگہ جگہ اور طرح طرح سے دیکھتے ہیں۔ مختلف زلزلوں، سیلابوں اور طوفانوں وغیرہ کی شکل میں۔ اور جو مرگیا اس کی قیامت تو قائم ہوگئی کہ اس نے پھر اس دنیا میں بہرحال واپس نہیں آنا۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے " من مات فقد قامت قیامتہ " تو پھر یہ غفلت اور لاپرواہی کیسی اور کیونکر ؟ والعیاذ باللہ، اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے آمین ثم آمین، یا رب العالمین۔ (36) قیامت کے روز منکروں کی انتہائی یاس و حسرت کا ذکرو بیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز کافر کہے گا کہ کاش کہ میں مٹی ہوتا، اور میں پیدا ہی نہ ہوتا، تاکہ مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا اور دوسرا ترجمہ اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں مٹی ہوجاتا، یعنی مٹی میں مل جاتا، اور دوبارہ نہ اٹھایا جاتا، تاکہ اس انجام سے دوچار نہ ہونا پڑتا، بہرکیف یہ تعبیر ہے اس کے انتہائی صدمے اور افسوس کی، جو ہر کافر و منکر شخص کو وہاں لاحق ہوگا، مگر اس کا کیا فائدہ ؟ کہ اس کا وقت تو بہرحال گزر چکا ہوگا، والعیاذ باللہ العظیم۔ سو کافر اور منکر لوگ جب اس ہولناک عذاب کو اپنے سامنے دیکھیں گے تو وہ اپنی محرومی اور بدبختی پر سر پیٹیں گے اور اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائیں گے، اور وہ رہ رہ کر یہ تمنا و آرزو کریں گے کہ کاش کہ ہم پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے، یا مٹی میں مل کر مٹ مٹا گئے ہوتے، تاکہ اس ذلت و رسوائی اور ہولناک عذاب اور برے انجام سے سابقہ نہ پڑتا، مگر بےوقت کے اس افسوس اور پچھتاوے سے ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہوگا، سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے، سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم کا دنیا پر یہ کس قدر بڑا احسان ہے کہ اس نے اس قدر صراحت و وضاحت کے ساتھ اتنا پیشگی خبردار کردیا ہے، تاکہ جو بچنا چاہیں وہ بچ جائیں، مگر دنیا ہے کہ پھر بھی اس سے غافل ہے، اور ایسی کہ پیغام حق و ہدایت کو سننے کے لیے تیار نہیں ہوتی بلکہ وہ الٹا حق اور اہل حق کی دشمن بنی ہوتی ہے۔ الا ماشاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ فایاہ نسائل التوفیق لما یحب ویرضی و علی ما یحب ویرضی سبحانہ و تعالیٰ
Top