Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 23
وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِیْهِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر عَلِمَ اللّٰهُ : جانتا اللہ فِيْهِمْ : ان میں خَيْرًا : کوئی بھلائی لَّاَسْمَعَهُمْ : تو ضرور سنادیتا ان کو وَلَوْ : اور اگر اَسْمَعَهُمْ : انہیں سنا دے لَتَوَلَّوْا : اور ضرور پھرجائیں وَّهُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی دیکھتا تو وہ انہیں ضرور سننے کی توفیق دے دیتا اور اگر انہیں اسی حالت میں سنا دیتا تو یقیناً یہ پھرجاتے منہ موڑ کر،
35 طلب صادق ذریعہ سرفرازی : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ طلب صادق اولین اساس ہے عنایات خداوندی سے سرفرازی کی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر اللہ ان لوگوں میں کوئی بھلائی دیکھتا حق کی طلب اور اس کی قبولیت کے ضمن میں تو وہ ان کو ضرور سنا دیتا۔ یعنی اگر ان کے اندر اس طرح کی کوئی بھلائی موجود ہوتی تو اللہ پاک ان کو اپنی عنایات سے ضرور نوازتا۔ کیونکہ یہاں پر علم کنایہ ہے وجود سے۔ یعنی اگر ان لوگوں کے اندر ایسی کوئی چیز ہوتی تو وہ اللہ کے علم میں ضرور ہوتی۔ کیونکہ موجودات میں سے کوئی بھی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہوسکتی۔ مگر ان کے اندر اس طرح کی کوئی چیز ہے اس لیے یہ محروم کے محروم ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو طلب صادق اولین اساس و بنیاد ہے عنایات خداوندی سے سرفرازی کی۔ اور جب ان لوگوں کے اندر قبول حق کی صلاحیت اور طلب صادق کا یہ جوہر موجود نہیں تو یہ اللہ کی عنایت اور توفیق بخشی سے سرفراز نہیں ہوسکتے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 36 طلب صادق سے محرومی، ہر خیر سے محرومی ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ الْعَظِیْمِ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر اللہ ان کو یونہی یعنی بغیر ظلب صادق کے سنا دیتا تو یہ یقینا اس سے پھرجاتے منہ موڑ کر۔ سو اگر اللہ ان کو اسی حالت میں سنا دیتا جبکہ نہ ان کے پاس قبول حق کی طلب ہے اور نہ اس کی قابلیت و استعداد۔ کیونکہ جس زمین میں بیج کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ ہو وہ تخم کو اگل دیتی ہے۔ سو طلب صادق اور صحیح استعداد سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے۔ اور اس سے انسان کا باطن اس بنجر اور بیکار زمین کی طرح ہوجاتا ہے جو کسی کام کی نہیں رہتی۔ اور اس میں حق و صداقت اور خیر و صلاح کی کوئی اہلیت اور صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ سو ہدایت و ضلالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون و دستور یہ ہے کہ اس نے ہر انسان کے اندر خیر و شر کے درمیان فرق وتمیز کی صلاحیت ودیعت فرمائی ہے۔ پس جو لوگ قدرت کی بخشی ہوئی اس صلاحیت کو زندہ رکھتے ہیں اور اس سے کام لیتے ہیں ان کو مزید ہدایت ملتی ہے۔ اور وہ درجہ بدرجہ اپنے علم و عمل میں ترقی کرتے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ خدا کی بخشی ہوئی اس فطری صلاحیت کو ضائع کر بیٹھتے ہیں ان کو مزید ہدایت ملنا تو درکنار قانونِ الٰہی کے مطابق ان کی وہ فطری ہدایت بھی سلب ہوجاتی ہے۔ حضرت حق نے اسی حقیقت کو یہاں پر اس نہایت بلیغ پیرائے میں اس طرح بیان فرمایا ہے اور وجہ اس کی ظاہر و باہر ہے جو غلام ایک پیسے میں چور ثابت ہو، اس کا مالک اس کو ایک لاکھ کی امانت کیسے سونپ سکتا ہے ؟ سو انسان کے بناؤ بگاڑ اور اس کی صحت و خرابی کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top