Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 24
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَجِيْبُوْا : قبول کرلو لِلّٰهِ : اللہ کا وَلِلرَّسُوْلِ : اور اس کے رسول کا اِذَا : جب دَعَاكُمْ : وہ بلائیں تمہیں لِمَا يُحْيِيْكُمْ : اس کے لیے جو زندگی بخشے تمہیں وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَحُوْلُ : حائل ہوجاتا ہے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : آدمی وَقَلْبِهٖ : اور اس کا دل وَاَنَّهٗٓ : اور یہ کہ اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم اٹھائے جاؤگے
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو لبیک کہو تم، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر، جب کہ وہ بلائے تمہیں اس چیز کی طرف جسمیں تمہاری زندگی ہے، اور یقین جانو کہ اللہ آڑ بن جاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے درمیان، اور یہ کہ سب کو بہرحال اس کے حضور جانا ہے اکٹھے ہو کر،1
37{ مَایُحْیِِیْکُمْ }[ حیات آفریں چیز ] سے مراد ؟ : یعنی قرآن ِ حکیم کی طرف جو کہ امین وضامن ہے حیات حقیقی اور زندگی جاودانی کا۔ نیز جبکہ وہ بلائے تمہیں جہاد فی سبیل اللہ کی طرف کہ وہ بھی حیات حقیقی کا ضامن و پاسدار ہے کہ اس سے قوائے شرو فساد کا قلع قمع ہوتا ہے اور اہل ایمان کو اس سے اس دنیا میں بھی حیات طیبہ یعنی " پاکیزہ زندگی " نصیب ہوتی ہے اور آخرت کے اس ابدی جہان میں بھی سدا بہار کامیابی حاصل ہوتی ہے جو کہ اصل اور حقیقی اور سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور بعض حضرات اہل علم کے نزدیک { مَا یُحْیِیْکُمْ } سے جملہ احکام دین مراد ہیں کہ ان کی پیروی میں بھی انسان کے لئے حقیقی کامیابی اور پاکیزہ زندگی کا راز مضمر ہے۔ مگر واضح رہے کہ ان اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ بلکہ سب ہی مراد ہیں۔ اور کلمہ " ما " کا عموم در اصل ان سب ہی معانی و مطالب کو عام اور شامل ہے۔ (روح، قرطبی، محاسن، صفوۃ، جامع اور مدارک وغیرہ) ۔ سو دین حنیف اور اس کی تعلیمات مقدسہ ایسی حیات آفریں اور روح پرور تعلیمات ہیں جو انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی کفیل وضامن ہیں ۔ وَبِاللّٰہِ التوفیق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وبیدہ ازمۃ الہدایۃ والعنایۃ - 38 اللہ تعالیٰ کے ایک قانون قدرت کا ذکر وبیان : یعنی یہ کہ اللہ آڑ بن جاتا ہے انسان اور اسکے دل کے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے حائل ہونے اور آڑ بننے سے مراد اس کے قانون فطرت کا حائل ہوجانا ہے کہ دل تو سب کے اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں۔ پس تم لوگ ہمیشہ اپنے دلوں کا تعلق اپنے اس مالک سے صحیح رکھو اور کسب خیر و برکت کی اس عظیم الشان فرصت سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھاؤ جو حیات دنیا کی صورت میں آج تم لوگوں کو میسر ہے قبل اس سے کہ یہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے۔ سو جو دل صدق و اخلاص سے معمور ومنور ہو کر طلب صادق کے ساتھ اپنے خالق ومالک کی طرف رجوع کریں گے وہ ان کو اپنے کرم اور اپنی عنایت سے نور حق اور نعمت ایمان و یقین سے نوازے گا۔ اور ایسا نوازے گا کہ وہ ان کے دلوں کے لئے حائل اور آڑ بن کر ان کو کفر و نفاق وغیرہ کی ظلمتوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے گا۔ اور اس کے برعکس جو لوگ اپنے کفر و باطل پر اڑے رہیں گے ان کے دلوں کے لئے وہ ایسا حائل اور آڑ بن جائے گا کہ ایسے لوگ اپنے خبث باطن اور سوئِ اختیار کی بناء پر ایمان و یقین کے نور اور اس کی لذت و حلاوت سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوجائیں گے جو کہ سب سے بڑا خسارہ اور نقصان ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس وحدہ لاشریک سے اپنے دلوں کا تعلق ہمیشہ صحیح رکھو ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ لِمَا یُحِبُّ و یُرِیَدُ ۔ وَہُوَا لْہَادِیْ الِی سَوائِ السَّبِیْل ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔ بہرکیف اس سے اس عظیم الشان قانون قدرت کو ذکر وبیان فرمایا گیا ہے۔ 39 حشر کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ بھی یاد رکھو کہ تم سب کو بہرحال اللہ پاک ہی کے حضور حاضر ہونا ہے اکٹھے ہوکر۔ اور وہاں پہنچ کر ہر کسی نے اپنے زندگی بھر کے اپنے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ پانا ہے۔ اور ہر کسی کو اپنے تمام کرتوتوں کا بھگتان بھگتنا ہوگا۔ سو اچھا برا جو بھی بدلہ تم لوگوں کو وہاں ملے گا وہ بہرحال تمہاری اپنے ہی زندگی بھر کی کمائی کا بدلہ ہوگا۔ اب ہر کوئی دیکھ لے اور اپنا محاسبہ خود کرلے کہ اس نے آگے کے لئے کیا کمایا بنایا ہے۔ اور اس کے مطابق وہ وہاں پر کس صلے اور بدلے کا مسحتق ہوسکتا ہے { اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ } سو اس یوم عظیم کو اور اس کے تقاضوں کو فراموش کردینا بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے اور عقل و نقل سب کا تقاضا ہے کہ اس یوم عظیم اور اس کے تقاضوں اور وہاں کی جوابدہی کو ہمیشہ یاد رکھ کر اس کے لئے تیاری کی جائے کہ اس کا موقع حیات دنیا کی اسی فرصت محدود میں ہی ہے اور بس ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وعلی ما یحب ویرید ۔ وَھُوَ الْہَادِیْ اِلَی سَوائِ السَّبِیْل ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق و ہدایت کو اپنانے کی توفیق بخشے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top