Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 31
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَاۤ١ۙ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیات قَالُوْا : وہ کہتے ہیں قَدْ سَمِعْنَا : البتہ ہم نے سن لیا لَوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہیں لَقُلْنَا : کہ ہم کہہ لیں مِثْلَ : مثل هٰذَآ : اس اِنْ : نہیں هٰذَآ : یہ اِلَّآ : مگر (صرف) اَسَاطِيْرُ : قصے کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (اگلے)
اور جب ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری آیتیں تو یہ پوری ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ہاں صاحب، ہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام بنا کرلے آئیں، یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں
54 کفار کے عناد اور ان کی ہٹ دھرمی کا ایک نمونہ و مظہر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب ان لوگوں کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ لوگ پوری ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے کہتے ہیں کہ ہاں صاحب ہم نے سن لیا اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام بنا کرلے آئیں۔ تو یہ محض قصے کہانیاں ہیں پہلے لوگوں کی۔ سو یہ لوگ محض عناد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر ایسا کہتے ہیں۔ یہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں اپنے جہل وعناد کی بناء پر۔ جیسا کہ نضربن الحارث جیسے رو ساء کفار کا کہنا تھا۔ جبکہ اندر سے یہ لوگ خوب جانتے تھے کہ ہم جھوٹے ہیں اور قرآن حکیم کا مقابلہ ہمارے بس میں نہیں۔ اور قرآن کے چیلنج کے مقابلے میں ان کی اور سب دنیا کے کفار و منکرین کی عاجزی اظہر من الشمس تھی، اور ہے۔ مگر ضد اور ہٹ دھرمی آدمی کو اس طرح اور اس قدر بےحیا بنا دیتی ہے کہ ایسے لوگ اس سب کے باجود اس طرح کی بڑھکیں مارنے سے بھی نہیں شرماتے کہ اگر ہم چاہیں تو قرآن حکیم جیسا کلام ہم بھی لاسکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر بناتے کیوں نہیں ہو جبکہ قرآن حکیم تو لوگوں کو اس کا صاف وصریح طور پر چیلنج بھی کررہا ہے۔ مگر اس قدر عجز اور بےبسی کے باوجود وہ بدبخت یوں کہتے تھے کہ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام لاسکتے ہیں۔ یہ تو محض پہلے لوگوں کے قصے اور ان کی کہانیاں ہیں۔ اساطیر کے بارے میں حضرات اہل علم میں سے بعض کا کہنا ہے کہ یہ ایسی جمع ہے جس کا کوئی مفرد نہیں۔ اور بعض نے کہا کہ یہ جمع ہے " اسْطُر " یا " سطور " کی جو کہ جمع سے " سطر " کی۔ سو یہ لفظ جمع الجمع ہے۔ اور بعض نے کہا کہ یہ جمع ہے " اسطورہ " کی۔ جس کے معنیٰ قصہ کہانی اور افسانہ وغیرہ کے ہیں۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ بہرکیف ان بدبختوں کا کہنا تھا کہ یہ محض ایک من گھڑت کلام ہے یعنی قصہ جو یہ صاحب خود گھڑ لاتے ہیں اور اس کو وحی اور کلام خداوندی کے نام سے آگے چلاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ -
Top