Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والے اِذَا : جب لَقِيْتُمْ : تمہارا آمنا سامنا ہو فِئَةً : کوئی جماعت فَاثْبُتُوْا : تو ثابت قدم رہو وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو، جب تمہارا مقابلہ (دشمن کے) کسی گروہ سے ہوجائے، تو تم ثابت قدم رہا کرو، اور بکثرت یاد کیا کرو، اللہ کو، تاکہ تم سرفراز ہوسکو فلاح (اور حقیقی کامیابی) سے3
91 اہل ایمان کو ثبات اور استقامت کا حکم وارشاد : سو اہل ایمان کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ ثابت قدم رہو دشمن کے مقابلے میں اور راہ حق و صواب پر۔ اور اس سے گریز و فرار کا کبھی خیال بھی اپنے دل میں نہ لانا کہ تمہارا راستہ بہرحال حق اور تمہارا انجام بہرکیف فوز و فلاح ہے کہ انجام کار کامیابی انہی لوگوں کیلئے ہے جو ایمان اور تقویٰ کی دولت سے سرشار و سرفراز ہیں۔ سو دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہنے پر تم کو سربلندی اور فائز المرامی سے نوازا جائے گا ۔ وباللہ التوفیق ۔ اور راہ حق میں ثابت قدمی اس لئے ضروری ہے کہ اللہ پاک کی نصرت و امداد ہمیشہ اسباب کے پردوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ دنیا بندوں کے لئے امتحان گاہ ہے۔ جب بندے اپنی صلاحیت کا ثبوت دیتے ہیں اور راہ حق میں اپنی استقامت اور ثابت قدمی کے جوہر دکھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد ان کے لئے ظاہر ہوتی ہے ۔ وَبِاللّٰہِ التوفیق ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق وصواب پر مستقیم اور ثابت قدم رکھے اور ہر قسم کے زیغ و زلل سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 92 اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنے کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہا کرو کہ اس کی یاد دلشاد روحوں کی غذا اور دلوں کی قوت و آبادی کا سامان ہے۔ سو ہر حال میں اور ہر طرح سے اس کے ذکر اور اس کی یاد دلشاد سے سرشار و سرفراز اور شاد کام رہو۔ جنان و لسان سے بھی اور جوارح و اَرکان سے بھی۔ سو اللہ کا ذکر اور اسکی یاد سرفرازی وفائز المرامی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ خاص کر میدان معرکہ اور حالت جنگ میں ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو شجر ایمان کی سرسبزی و شادابی ذکر الٰہی کی جھڑی ہی سے حاصل ہوتی ہے اور ذکر الٰہی یوں تو سانس کی طرح ایمانی زندگی کے لئے ہر لمحہ و لحظہ ہی میں ضروری ہے لیکن حالات جب زیادہ صبر آزما ہوں تو اس وقت ذکر الٰہی اور بھی زیادہ مقدار میں مطلوب ہوتا ہے۔ اس لئے جنگ کی حالت میں ذکر کی کثرت کا حکم و ارشاد فرمایا گیا۔ تاکہ اس کے نتیجے میں اس کی نصرت و امداد سے سرشاری و سرفرازی نصیب ہو سکے۔ سو اس وحدہ لا شریک کی یاددلشاد دلوں کی آبادی اور ان کی شادابی کا ذریعہ و وسیلہ ہے جبکہ اس سے غفلت و لاپرواہی دلوں کی ویرانی اور ان کی اجاڑ کا باعث ہے۔ اور خدا فراموشی کا نتیجہ خود فراموشی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسَاہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُوْلٰئکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ } ۔ (الحشر : 19) یعنی " تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہوجانا جو اللہ کو بھول گئے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو خود اپنے آپ سے غافل کردیا۔ یعنی خدا فراموشی کا لازمی نتیجہ خود فراموشی ہے اور ظاہر ہے کہ خود فراموشی بڑا ہولناک خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 93 ذکر خداوندی اور یاد الہی باعث سرفرازی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم حقیقی فوز و فلاح سے سرفراز ہو سکو کہ اس کی یاد دلشاد سے تمہارے دلوں کو قوت ملے گی۔ تمہارے حوصلے بلند ہوں گے اور تمہیں اسکی نصرت و امداد سے سرفرازی نصیب ہوگی۔ جسکے بعد تمہارے لیے کامیابی ہی کامیابی ہے اور اس طرح تم لوگ حقیقی فوز و فلاح سے سرفراز و سرشار ہوسکو گے ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو ذکر الٰہی فوز و فلاح سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ اور " فلاح " ایک جامع لفظ ہے جو کہ دنیا و آخرت کی کامیابی پر محیط و مشتمل ہے۔ سو مجرد غلبہ تو ہوسکتا ہے کہ ذکر الٰہی کے بغیر بھی حاصل ہوجائے لیکن وہ فلاح کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ فلاح اسی غلبہ سے حاصل ہوگی جس کا دروازہ ذکر الٰہی کی مدد سے کھلے۔ یہاں سے اس بارے بھی غور کیا جائے کہ ذکر اللہ کی عظمت شان اور اس کے تقاضے کیا ہیں اور آج کا مسلمان غفلت کے کس ہاویے میں گرا ہوا ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top