Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 46
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ
وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور لَا تَنَازَعُوْا : آپس میں جھگڑا نہ کرو فَتَفْشَلُوْا : پس بزدل ہوجاؤگے وَتَذْهَبَ : اور جاتی رہے گی رِيْحُكُمْ : تمہاری ہوا وَاصْبِرُوْا : اور صبر کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور دل وجان سے کہا مانا کرو تم لوگ اللہ کا، اور اس کے رسول کا، اور آپس میں جھگڑا (اور اختلاف) نہ کیا کرو کہ اس سے تم کمزور ہوجاؤ گے، اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر (وضبط) سے ہی کام لیتے رہا کرو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے،
94 اطاعت خدا و رسول کا حکم وارشاد : سو اس سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم وارشاد فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور کہا مانو تم لوگ اللہ اور اسکے رسول کا : اور رضا ورغبت اور دل کی خوشی اور چاہت سے مانو کہ اس میں خود تمہارا اپنا ہی بھلا ہے کہ اس سے تم کو اس دارفانی میں سکون و اطمینان اور راحت قلبی کی سعادت اور حیات طیبہ کی انمول دولت نصیب ہوگی۔ اور آخرت کے اس جہان ابدی میں حقیقی اور دائمی کامیابی سے سرفرازی بھی ۔ وباللہ التوفیق ۔ اور اس ضمن میں عمومی اطاعت کے ساتھ ساتھ خاص طور پر دشمن کے مقابلے میں کامل نظم و نسق اور ڈسپلن کا ثبوت دو ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اس اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم وارشاد فرمایا گیا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کے دو منفرد پہلو ایسے ہیں کہ ان کی بنا پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری اور صدق دل سے اور غیر مشروط طور پر مطلوب ہے۔ اور یہ عقل ونقل دونوں کا تقاضا ہے۔ ان دو پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا جو بھی کوئی حکم وارشاد ہوتا ہے وہ خالص بندوں ہی کے بھلے کے لیے ہوتا ہے۔ اور بھلا بھی ایسا جو دنیا وآخرت دونوں کو شامل ہے۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے کسی حکم وارشاد میں کسی خطا و قصور کا قطعا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔ وہ سراسر خیر ہی خیر ہوتا ہے۔ اور یہ شان اللہ اور اس کے رسول کے سوا اور کسی کے حکم کی ہوسکتی ہی نہیں۔ اس لیے باقی ہر کسی کی اطاعت مشروط ہے مگر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت مطلق اور بغیر کسی شرط وقید کے مطلوب ہے کہ وہ سراسر خیر ہے ۔ وباللہ التوفیق - 95 باہمی نزاع وجدال کی ممانعت : سو اس سے باہمی نزاع وجدال کی ممانعت فرما دی گئی ہے اور اس ضمن میں یہ بہی واضح فرما دیا گیا کہ آپس کے نزاع وجدال کا نقصان خود اپنے آپ ہی کو ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ آپس میں جھگڑا اور اختلاف نہیں کرنا کہ اس کے نتیجے میں تم کمزور ہوجاؤ اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے۔ سو معلوم ہوا کہ باہمی نزاع اور جدال و خلاف اپنی کمزوری کا باعث ہے۔ مگر افسوس کہ آج مسلمان اسی مرض میں مبتلا اور اسی بیماری کا شکار ہیں۔ اور ان میں جا بجا اور طرح طرح سے اس کے مظاہر نظر آتے ہیں، جسکے نتیجے میں یہ طرح طرح کی ہلاکتوں اور مشکلات کا شکار ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ آپس میں اختلاف نہیں کرنا کہ اس کے نتیجے میں تم کمزور پڑجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائی گی لیکن افسوس کہ آج مسلمان جگہ جگہ آپس میں برسر پیکار ہیں۔ ملکوں ملکوں کے درمیان اور قبیلوں اور پارٹیوں کے درمیان سرپھٹول ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 96 صبر و ضبط سے کام لینے کی تعلیم و تلقین : سو حکم وارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ صبر و ضبط ہی سے کام لیتے رہا کرو۔ اور راہ حق میں خواہ تم کو کیسے ہی صبر آزما حالات کا سامنا پیش آئے، اس سے کبھی ہلنا نہیں کہ سربلندی بہرحال تمہاری ہی ہے۔ اور غلبہ آخر کار حق ہی کا ہے کہ صبر وسیلہ ظفر ہے۔ چناچہ اسی صبر و استقامت اور اطاعت و ثابت قدمی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام تعداد کی قلت اور سامان حرب و ضرب کی کمی کے باوجود تھوڑے سے عرصے میں چاروں طرف پھیل گئے اور اسلام کا جھنڈا ہر طرف لہرا دیا ۔ ( قال بہ ابن کثیر) ۔ بہرکیف اس میں صبر و ثبات کا حکم فرمایا گیا اور وہی بات جو اوپر { فَاثْبُتُوْا } " تم ثابت قدم رہو " کے الفاظ سے ارشاد فرمائی گئی تھی اس کو یہاں پر { فَاصْبِرْوُا } کے الفاظ سے ارشاد فرمایا گیا۔ سو صبر و ضبط اور استقامت وثابت قدمی کی راہ حق میں خاص اہمیت ہے ۔ اللہ نصیب فرمائے اور ہمیشہ اس سے سرشار رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 97 اللہ تعالیٰ کی معیت کا مژدہ جانفزا : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے۔ اپنی تائید و نصرت اور حمایت و مدد کے اعتبار سے۔ اور جس کو اس کی نصرت و معیت کا یہ شرف و امتیاز حاصل ہو اس کو کسی کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔ پس صبر و استقامت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا اور اس خالق کل اور مالک مطلق کے ساتھ اپنا رشتہ وتعلق ہمیشہ صحیح اور مستحکم رکھو کہ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اس کی تائید و نصرت سے سرفرازی فوز و فلاح کی کفیل وضامن ہے، جسکے حصول کا بڑا اہم اور بنیادی ذریعہ صبر و استقامت ہے۔ پس اس کو ہمیشہ اپنائے رکھنے کی فکر و کوشش میں رہنا ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد سے سرفراز ہونا چاہتے ہو تو اپنے اندر جماعتی کردار اور نظم و نسق سے اس کا استحقاق پیدا کرو۔ خداوند قدوس منتشر اور غیر منظم بھیڑ کا ساتھ نہیں دیتا، بلکہ اس کی نصرت و امداد ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اس کی راہ میں جہاد کے لئے " بنیان مرصوص " بن کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وعی ما یحب ویرید ۔ وَھُوَا الْہَادِیْ الٰی سَوَائِ السَّبِیْلِ ۔ بہرکیف اللہ تعالیٰ کی معیت اور اس کی تائید و نصرت سے سرفرازی کے لیے صبر و استقامت کی ضرورت ہے۔
Top