Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 58
وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ۠   ۧ
وَاِمَّا : اور اگر تَخَافَنَّ : تمہیں خوف ہو مِنْ : سے قَوْمٍ : کسی قوم خِيَانَةً : خیانت (دغا بازی) فَانْۢبِذْ : تو پھینک دو اِلَيْهِمْ : ان کی طرف عَلٰي : پر سَوَآءٍ : برابری اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْخَآئِنِيْنَ : دغا باز (جمع)
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کسی قوم سے خیانت (اور عہد شکنی) کا، تو تم پھینک دو ان کی طرف ان کے عہد کو، اس طور پر کہ ایک برابر ہوجاؤ تم لوگ اور وہ، بیشک اللہ پسند نہیں فرماتا خیانت کرنے والوں کو،
121 معاہدے کی پابندی کا احترام طرفین سے مطلوب ہوتا ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تمہیں کسی قوم سے عہد شکنی کا اندیشہ ہو، اور اس کی علامات اور نشانیاں پائی جائیں کہ وہ لوگ عہد شکنی پر تلے ہوئے ہیں، تو ایسی صورت میں تم پر ایسے کسی عہد کی پابندی لازم اور ضروری نہیں، بلکہ ایسے میں تم بھی اس عہد کو ان کے حوالے کرکے اس سے سکبدوش ہوجاؤ۔ مگر نقض عہد سے ان کو آگاہ کئے بغیر ان کے خلاف کوئی ایکشن و اقدام نہیں کرنا ۔ سبحان اللہ ۔ کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ اے مسلمانو ! تم لوگ ان کی غداری کے باوجود ان کو آگاہ کیے بغیر نقض عہد کا ارتکاب نہیں کرنا۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ عہد کی پابندی تم پر یکطرفہ لازم نہیں ہے، بلکہ یہ اسی صورت میں ہے کہ جب دوسرا فریق بھی اس کا احترام کرے۔ لیکن وہ اگر اس کا احترام نہیں کرتا تو ایسے میں تم بھی اس معاہدے کو ان کے منہ پر پھینک مارو { عَلٰی سَوَائٍ } کا مفہوم یہ ہے کہ تم بھی ان کے برابر کا اقدام کرنے کے مجاز ہو۔ سو اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی اجازت نہیں، بلکہ جواب برابر کا اور ہم وزن ہو۔ سبحان اللہ کس قدر عدل وانصاف اور باریکیوں پر مشتمل ہیں دین حنیف کی یہ تعلیمات مقدسہ ۔ فالحمد للہ - 122 خیانت و غدر سے احتراز و اجتناب کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ پسند نہیں فرماتا خیانت کرنے والوں کو۔ سو اس سے معاہدہ کے خاتمے کے سلسلے میں خیانت سے بچنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ پس عہد کے خاتمے کے ضمن میں بدعہدی سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ اس لیے تم لوگ عہد و پیمان کے خاتمے کے اعلان سے پہلے ان لوگوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرنا کہ یہ عہد شکنی اور خیانت کے زمرے میں آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ سنن ابوداؤد وغیرہ میں مروی ہے کہ حضرت امیر معاویہ ۔ ؓ ۔ نے اپنے دور حکومت میں رومیوں سے کوئی میعادی عہد کر رکھا تھا اور اس میعاد کے پورا ہونے سے کچھ ہی پہلے آپ ؓ نے اپنی فوجوں کو رومی سرحدوں پر جمع کرنا شروع کردیا تاکہ میعاد پوری ہوتے ہی ان پر حملہ کردیا جائے۔ مگر جب اس کے بارے میں حضرت عمرو بن عبسہ ؓ کو پتہ چلا تو آپ ؓ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا " اللہ اکبر وفا ئِ لا غدر " یعنی " وفا چاہیئے غدر اور دھوکہ نہیں "۔ اس پر حضرت امیر معاویہ ۔ ؓ ۔ نے اپنی فوجوں کو واپس بلا لیا۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الامام یکون بینہ و بین العدو عہد فیسیر الیہ، ترمذی کتاب السیر، باب ما جاء فی الغدر) ۔ سبحان اللہ ۔ کیسی سچی، پاکیزہ اور برحق تعلیمات ہیں اس دین حنیف کی اور کیسے پاکیزہ اور منزہ نفوس تھے ان صحابہ کرام کے نفوس۔ اور کلمہ حق کے سامنے سر تسلیم خم کردینے کی کیسی پاکیزہ خو تھی ان حضرات کی ۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔ بہرکیف اس میں اہل ایمان کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اگر تمہیں کسی قوم سے خیانت اور عہد شکنی کا اندیشہ ہو تو تم ان سے ان کے عہد کو برابری کی بنیاد پر پھینک دو ، لیکن دھوکہ دہی اور خیانت کی ہر شکل سے بچنا۔ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
Top