Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 62
وَ اِنْ یُّرِیْدُوْۤا اَنْ یَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُ١ؕ هُوَ الَّذِیْۤ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَۙ
وَاِنْ : اور اگر يُّرِيْدُوْٓا : وہ چاہیں اَنْ : کہ يَّخْدَعُوْكَ : تمہیں دھوکہ دیں فَاِنَّ : تو بیشک حَسْبَكَ : تمہارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ هُوَ : وہ الَّذِيْٓ : جس نے اَيَّدَكَ : تمہیں زور دیا بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد سے وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ : اور مسلمانوں سے
اور اگر یہ لوگ دھوکہ دینا چاہیں آپ کو تو (اس کی پرواہ نہیں کرنا کہ) بیشک کافی ہے آپ کو اللہ (ان سب کے مقابلے میں) وہ وہی ہے، جس نے آپ کو قوت بخشی اپنی مدد سے، اور مسلمانوں کے ذریعے،
133 بھروسہ اللہ پر رکھیں اور دشمن کی پرواہ نہ کریں : کہ اگر اللہ پر صحیح طور سے بھروسہ ہو تو پھر کسی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی { اِنْ یُّرِیْدُوا } کے جملہ شرطیہ کا جو اب شرط محذوف ہے جو اسی طرح کے کسی جملے سے مقدر مانا جاسکتا ہے۔ اور { فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہِ } اس محذوف و مقدر کی علت اور دلیل ہے۔ اور یہ قرآن حکیم کا ایک معروف اسلوب ہے جو جگہ جگہ پایا جاتا ہے۔ سو اس ارشاد ربانی میں یہ درس عظیم دیا گیا ہے کہ اگر اللہ پر صحیح طور سے بھروسہ و اعتماد ہے تو پھر کفار و مشرکین کے شرور سے ڈرنے اور ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ اللہ آپ کو کافی ہے۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ آپ کو دھوکہ دینے کی کوشش کریں تو آپ ان کی پرواہ نہ کریں کہ اللہ آپ کو کافی ہے۔ پس اس طرح کے کسی اندیشے کی بناء پر صلح اور خیر کی پیشکش کو ٹھکرایا نہ جائے بلکہ اللہ کے بھروسے پر اس کو قبول کرلیا جائے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ توکل علی اللہ کا درس صرف مسجد کی چار دیواری ہی تک محدود نہیں بلکہ میدان جنگ میں بھی مسلمانوں کی اصل قوت یہی ہے۔ اور دشمن سے مصالحت جیسے اہم امور اور بین الاقوامی معاملات میں بھی اہل ایمان کی ڈھارس اور ان کا پشت پناہ اللہ ہی ہے سو اللہ پر توکل ہی مسلمان کی اصل قوت اور اس کا حقیقی سرمایہ ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 134 کافی ہے اللہ آپ کو [ اے پیغمبر !] : جس نے آپ کو قوت بخشی اپنی مدد سے خاص طور پر اور ظاہری اسباب کے بغیر۔ جیسا کہ بدر میں ہوا کہ ایک طرف آپ ﷺ کی مدد کے لئے بطور خاص آسمان سے فرشتوں کے لشکر اتارے گئے اور دوسری طرف کفار کے دلوں میں رعب ڈال دیا گیا۔ پھر عین معرکہ کے دوران ان کی تھوڑی سی تعداد کو دشمن کی آنکھوں میں دو گنا کر کے دکھایا گیا جس سے ان کے حوصلے پست ہوگئے وغیرہ وغیرہ۔ جس سے وہ ذلت آمیز اور کمر توڑ شکست سے دوچار ہوئے ۔ والحمد اللہ ۔ سو وہ اللہ آپ کو کافی ہے ہر حال میں اور زندگی کے ہر موڑ پر۔ پس دل کا بھروسہ ہمیشہ اسی پر رکھیں۔ سو " اللہ کافی ہے آپ کو " کا ارشاد مسلمان کے لئے ایک عظیم الشان اور بےمثال ڈھارس اور اس کی قوت کا اصل سرچشمہ ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کا جاہل مسلمان اپنے اس سرچشمہ قوت سے غافل و بیخبر ، طرح طرح کے تنکوں کا سہارا لیتا اور عاجز و بےبس مخلوق پر تکیہ و آسرا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ میدان جنگ میں بھی اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو پکارتا اور ان کے نام کے نعرے لگاتا ہے۔ تو پھر اس کو اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد سے سرفرازی نصیب ہو تو کیسے ہو ؟ جب کہ یہ اس پر بھروسہ رکھتے اور اس کو پکارنے کے شرف ہی سے محروم رہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ زیغ وضلال کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔ 135 پیغمبر کی تائید وتقویت اہل ایمان کے ذریعے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے آپکو قوت بخشی اہل ایمان کے ذریعے کہ ظاہری اسباب کے درجے میں ان کو بھی آپ کے لئے مدد اور قوت کا ذریعہ بنایا اور انہوں نے جس اطاعت و فرمانبرداری اور جانبازی و سرفروشی سے آپ کا ساتھ دیا اس کی مثال چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔ سو ایسے میں آپ کو ان کفار و مشرکین کی شر انگیزیوں کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے ؟ پس آپ کے سچے پیروکار اہل ایمان کی مدد آپ کیلئے کافی ہے اور آپ کی اطاعت و اتباع کی برکت سے آپ کے ان سچے پیروکاروں کو ایسی قوت اور برکت نصیب ہوئی کہ ان کی تھوڑی سی تعداد کفار کے اتنے بڑے لشکر پر غالب آگئی۔ سو مومن کی قوت کا اصل دارومدار قوت ایمان، توکل علی اللہ اور اطاعت و اتباع رسول میں ہے ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ-
Top