Tafseer-e-Madani - Al-Ghaashiya : 20
وَ اِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْٙ
وَاِلَى الْاَرْضِ : اور زمین کی طرف كَيْفَ : کیسے سُطِحَتْ : بچھائی گئی
اور (اپنے پیش پا افتادہ) اس زمین کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح اس کو بچھا دیا گیا ؟
(11) بچھونہ ارضی میں غور و فکر کی دعوت و ہدایت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا یہ لوگ اس زمین کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح بچھایا گیا اس کو ؟ " اور تمہارے لیئے آرام و راحت کے بےحدو حساب فوائد و منافع اس کے اندر رکھ دیے اور اس نے اس کو زندوں اور مردوں سب کو سمیٹنے والی بنادیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ( آیت، المرسلات 25 تا 27 پ 29) سو جس قادر مطلق نے یہ سب کچھ پیدا کردیا اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیوں اور کیا مشکل ہوسکتا ہے ؟ بلکہ حق و حقیقت کا تقاضا ہے کہ وہ سب کو دوبارہ پیدا کرے اور ضرور پیدا کرے تاکہ عدل وانصآف کے تقاضے پورے ہوں اور اپنی آخری اور کامل شکل میں پورے ہوسکیں کہ شکر گزاروں اور فرمانبرداروں کو ان کے انعام سے نوازا جائے اور سرکشوں کو ان کے کیے کرائے کی سزا ملے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ سو اس سے ان کی نگاہ عبرت کو پہاڑوں سے اتار کر زمین تک پہنچا دیا گیا، کہ اپنے پاؤں تلے بچھے اس عظیم الشان بچھونا ارضی میں سوچو اور غور کرو کہ اس کو اس قدر پر حکمت اور محیر العقول طریقے سے بچھایا کس نے ؟ اور اس میں طرح طرح کے عظیم الشان خزانے اور یہ اسباب معیشت و معاش رکھے کس نے ؟ اور اس سے تم لوگ سوچو اور غور رکو کہ وہ کتنا قدیر و عزیز، کس قدر رحمان و رحیم اور ایسا فیاض و کریم ہے ؟ سبحانہ وتعالی۔ سو وہی اللہ خالق ومالک اور معبود برحق ہے، اور اسی کے حضور حاضر ہونا ہے تم سب لوگوں کو، اور بہرحال اور یقینا حاضر ہونا ہے اور اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے، سو تم دیکھ لو کہ اپنے رب کے حضور حاضری اور وہاں کے اس یوم حساب کی پیشی کے لیے تم نے کیا تیاری کی ہے ؟ اور اس کے نتیجے میں تم لوگ کس قسم کے انجام کی توقع رکھتے ہو ؟ اور اس کی بخشی ہوئی نعمتوں کا کیا جواب دو گے، سو زمین و آسمان اور پہاڑوں وغیرہ کی اس عبرتوں اور حکمتوں بھری کائنات میں صحیح طریقے سے غور و فکر کے ذریعے انسان کو توحید خداوندی، بعثت و رسالت اور معاد و آخرت کے تینوں بنیادی عقائد کے لیے وقیع دلائل مل جاتے ہیں، بشرطیکہ انسان صحیح طریقے سے غور و فکر کرے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔
Top