Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 65
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ١ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر سَاَلْتَهُمْ : تم ان سے پوچھو لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے اِنَّمَا : کچھ نہیں (صرف) كُنَّا : ہم تھے نَخُوْضُ : دل لگی کرتے وَنَلْعَبُ : اور کھیل کرتے قُلْ : آپ کہ دیں اَبِاللّٰهِ : کیا اللہ کے وَاٰيٰتِهٖ : اور اس کی آیات وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول كُنْتُمْ : تم تھے تَسْتَهْزِءُ وْنَ : ہنسی کرتے
اور اگر آپ ان سے پوچھیں تو یہ فورا کہہ دیں گے کہ " ہم تو یوں ہی گپ شپ اور دل لگی کر رہے تھے " کہو کیا تمہیں اللہ، اس کی آیتوں، اور اس کے رسول ہی سے دل لگی کرنا تھی ؟3
133 منافقوں کے نفاق کا ایک اور مظہر : کہ یہ لوگ اللہ، اس کے رسول اور اس کی آیتوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ چناچہ سفر تبوک کے دوران منافقین کی ایک جماعت نے حضرت رسالت مآب۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ اور آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین حق کے بارے میں اسی طرح کی کچھ بےہودہ اور گستاخانہ باتیں کیں۔ پھر اطلاع ملنے پر جب آنحضرت ﷺ نے ان سے اس بارے دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب میں کہا نہیں جناب ! ہم تو یونہی سفر کاٹنے کے لئے دل لگی اور گپ شپ کر رہے تھے اور بس۔ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس سے ان لوگوں کی منافقت کے اس قصے کو آشکارا کرکے ان کی ہمیشہ کی رسوائی کا سامان کردیا گیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اسی لئے اس سورة کریمہ کا ایک نام " فاضحہ " بھی ہے۔ یعنی " رسوا کرنے والی " اور " منبہہ " بھی یعنی " خبر دینے والی "۔ (المراغی، المحاسن، ابن کثیر وغیرہ) ۔ بہرکیف اس میں منافقوں کے نفاق کا ایک اور مظہر پیش فرمایا گیا ہے اور یہ سورة کریمہ جس طرح مشرکین اور اہل کتاب کے بارے میں خاتمہ بحث کی حیثیت رکھتی ہے اسی طرح یہ منافقوں کے بارے میں بھی فیصلہ کن سورت ہے۔ اس میں طرح طرح سے ان کے نفاق سے پردہ اٹھایا گیا اور اس کو بےنقاب کیا گیا اور ان کو پوری طرح ننگا کر کے رکھ دیا گیا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ راہ حق پر گامزن رکھے ۔ آمین۔ 134 اللہ اور اس کے رسول سے استہزائ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ کیا تم لوگوں کو اللہ اس کی آیتوں اور اس کے رسول ہی سے دل لگی کرنا تھی ؟ یعنی اس طرح کی گپ شپ اور دل لگی تو حقیقت میں تمسخر و استہزاء ہے تو کیا تمہیں اس کے لئے اللہ اور اس کے رسول ہی ملے تھے ؟ یہ کس قدر احمقانہ جسارت ہے جس کا ارتکاب تم لوگوں نے کیا ہے ؟ سو یہی نتیجہ ہوتا ہے نور ایمان اور دولت یقین سے محرومی کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ان منافقوں کے " عذر گناہ بدتر از گناہ " کی ایک مثال تھی جس کو یہاں پیش فرمایا گیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور انسان جب دولت ایمان و یقین اور صدق و اخلاص سے محروم ہوتا ہے تو اس کا حال یہی ہوجاتا ہے کہ اس کو نہ سیدھی راہ نصیب ہوتی ہے اور نہ صحیح بات سوجھتی ہے ۔ الا ما شاء اللہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top