Madarik-ut-Tanzil - Yunus : 21
وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَا١ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا١ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ
وَاِذَآ : اور جب اَذَقْنَا : ہم چکھائیں النَّاسَ : لوگ رَحْمَةً : رحمت مِّنْۢ بَعْدِ : بعد ضَرَّآءَ : تکلیف مَسَّتْھُمْ : انہیں پہنچی اِذَا : اس وقت لَھُمْ : ان کے لیے مَّكْرٌ : حیلہ فِيْٓ : میں اٰيَاتِنَا : ہماری آیات قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَسْرَعُ : سب سے جلد مَكْرًا : خفیہ تدبیر اِنَّ : بیشک رُسُلَنَا : ہمارے فرشتے يَكْتُبُوْنَ : وہ لکھتے ہیں مَا تَمْكُرُوْنَ : جو تم حیلہ سازی کرتے ہو
اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت (سے آسائش) کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیتوں میں حیلے کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا بہت جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ اور جو حیلے تم کرتے ہو ہمارے فرشتے ان کو لکھتے جاتے ہیں۔
مکہ والوں کے عداوتی منصوبے : 21: وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ (جب ہم لوگوں کو چکھاتے ہیں) الناس سے اہل مکہ مراد ہیں۔ رَحْمَۃً (مہربانی) خوشحالی ووسعت مِّنْم بَعْدِ ضَرَّآ ئَ مَسَّتْھُمْ (اس دکھ کے بعد جو ان کو پہنچا) ضراء یعنی قحط، بھوک اِذَا لَھُمْ مَّکْرٌ فِیْ اٰیَاتِنَا (اسی وقت وہ ہماری آیات کے متعلق تدابیر کرنے لگتے ہیں) یعنی ان آیات کے انکار اور دفع کی تدابیر کرنے لگتے ہیں روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ پر سات سال قحط کو مسلط کردیا یہاں تک کہ ہلاکت کے قریب پہنچ گئے پھر بارش دیکر ان پر مہربانی فرمائی۔ جب مہربانی ہوئی تو اسی وقت اللہ تعالیٰ کی آیات پر طعنہ زنی شروع کردی اور رسول اللہ ﷺ کے متعلق دشمنی اور عداوت کے منصوبے گا نٹھنے لگے۔ اذاؔ پہلا شرط کا معنی دے رہا ہے اور دوسرا اسکے جواب میں ہے۔ اور وہ مفاجات کا معنی دے رہا ہے جیسا کہ اس ارشاد میں ہے۔ وان تصبہم سیئۃ بماقدمت ایدیھم اذاھم یقنطون [ الروم : 36] یعنی اگر ان کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو مایوس ہوجاتے ہیں اور جب ہم لوگوں کو مہربانی کا مزہ چکھاتے ہیں تو منصوبے باندھنا شروع کردیتے ہیں۔ المَکْرؔ تدبیر کو چھپا کر رکھنا الجاریۃ الممکورہ بداخلاق لونڈی کو کہتے ہیں۔ مَسَّتْہُمْ ؔ کا معنی یہ ہے کہ وہ تکلیف ان میں اسقدر رچ جاتی ہے کہ اس کا برا اثر ان میں محسوس نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قُلِ اللّٰہُ اَسْرَ عُ مَکْرًا (کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر تیز ہے) مگر ان کے متعلق نہیں فرمایا کیونکہ کلمہاذا اس بات پر دلالت کررہا ہے گویا اس طرح فرمایا جب ہم تکلیف کے بعد ان پر مہربانی کرتے ہیں تو اچانک وہ فریب کاریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جلدی سے انکار کا ارتکاب کرتے ہیں اس سے پہلے کہ تکلیف کے بقیہ اثرات سے اپنے کو محفوظ کریں۔ اِنَّ رُسُلَنَا ( بیشک ہمارے قاصد) حفاظتی فرشتے یَکْتُبُوْنَ مَاتَمْکُرُوْنَ (تمہاری وہ مکاریاں لکھتے رہتے ہیں) اس میں اس بات سے خبردار کیا گیا کہ جس کو تم مخفی سمجھتے ہو وہ اللہ تعالیٰ سے چھپایا نہیں جاسکتا۔ وہ خود انکا بدلہ تم سے چکالے گا۔ قراءت : یا سے وارد ہے۔
Top