Madarik-ut-Tanzil - Yunus : 91
آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
آٰلْئٰنَ : کیا اب وَقَدْ عَصَيْتَ : اور البتہ تو نافرمانی کرتا رہا قَبْلُ : پہلے وَكُنْتَ : اور تو رہا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
(جواب ملا) کہ اب (ایمان لاتا ہے) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا ؟
91: ٰٓ الْئٰنَ ( کیا اب) تو اضطرار کی گھڑی میں ایمان لاتا ہے۔ جبکہ تو غرق ہو رہا ہے۔ اور اپنے بچنے کی امیدٹوٹ چکی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ جب پانی نے اس کو ڈبونے کی لگام چڑھائی تو یہ کہہ اٹھا۔ نحو : آٰ لْئٰنَ کا عامل اَتُؤْمِنُ محذوف ہے۔ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ (حالانکہ تو نے اس سے قبل نافرمانی کی اور تو مفسدین میں سے تھا) ان گمراہوں میں سے تھا جو ایمان سے برگشتہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے اس سے ایک استفتاء طلب کیا۔ ماقول الا میر فی عبدلرجل نشأ فی مالہ و نعمتہ فکفر نعمتہ وجحد حقہ وادعیالسیادۃ دونہ۔ امیر کیا کہتے ہیں ایسے غلام کے متعلق جو ایسے آدمی کا ہو جس کے مال و نعمت میں اس نے پرورش پائی ہو مگر وہ غلام اپنے آقا کی نعمتوں کی ناشکری کرے اور اس کے حقوق کا منکر ہوجائے اور خود آقا کی جگہ سرداری کا دعوے دار بن بیٹھے۔ پس اس نے اس سوال کا جواب یہ لکھا : یقول ابو العباس الولیدبن مصعب۔ جزاء العبد الخارج علی سیدہ، الکافر نعماءہ ان یغرق فی البحر۔ ابو العباس الولید بن مصعب کہتا ہے کہ ایسے غلام کی سزا کہ جو اپنے آقا کے خلاف خروج کرنے والا اور اسکی نعمتوں کی ناشکری کرنے والا ہو۔ اس کو سمندر میں ڈبو دیا جائے۔ چناچہ جب وہ ڈوبنے لگا تو جبرئیل (علیہ السلام) نے اسکی اپنی تحریر اس کے ہاتھ میں تھما دی اس نے پہچان لی۔
Top