Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 132
وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جو۔ جس سَخَّرَ : مسخر کیا الْبَحْرَ : دریا لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھؤ مِنْهُ : اس سے لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْا : اور تم نکالو مِنْهُ : اس سے حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا : تم وہ پہنتے ہو وَتَرَى : اور تم دیکھتے ہو الْفُلْكَ : کشتی مَوَاخِرَ : پانی چیرنے والی فِيْهِ : اس میں وَلِتَبْتَغُوْا : اور تاکہ تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا تاکہ اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ۔ اور اس سے زیور (موتی وغیرہ) نکالو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں اور اس لئے بھی (دریا کو تمہارے اختیار میں کیا) کہ تم خدا کے فضل سے (معاش) تلاش کرو اور تاکہ (اسکا) شکر کرو۔
سمندر اور اس کے فوائد : 14: وَھُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْکُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا (اور وہ ایسی ذات ہے جس نے سمندر کو مسخر کیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھائو) ۔ لحمًا طریًا سے مچھلی مراد ہے۔ اس کو طَرِیٌّ اس لئے فرمایا کیونکہ بہت جلد یہ خراب ہوتی ہے پس بگاڑ کے خطرے سے جلدی سے تازہ کھالی جاتی ہے۔ نکتہ : اگر کسی آدمی نے قسم اٹھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائیگا۔ تو مچھلی کھانے سے اس کی قسم نہ ٹوٹے گی۔ کیونکہ قسم کا مدارعرف پر ہوتا ہے۔ اور عرف میں اس کو گوشت نہیں کہتے۔ جس نے اپنے غلام کو کہا اشتر بھذہ الدراھم لحمًا وہ مچھلی خرید لایا تو وہ اس لائق ہے کہ آقا اس کا انکار کر دے۔ بقیہ ائمہ قسم ٹوٹنے کے قائل ہیں۔ وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا (تاکہ تم اس سے زیور نکالو۔ جس کو تم پہنتے ہو) حلیہ سے مراد یہاں مونگے اور موتی ہیں۔ تَلْبَسُوْنَ کا مطلب تمہاری عورتیں پہنیں۔ لیکن مخاطب مردوں کو فرمایا کیونکہ ان کی زینت مردوں کیلئے ہوتی ہے گویا وہ مردوں کی زینت اور انکا لباس ہی ہے۔ وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیْہِ ( اور تم کشیتوں کو دیکھو گے اس میں پانی کو چیرتی ہوئی جارہی ہیں) کشتیاں چلتی ہیں اور پانی کو چلتے وقت چیرتی ہیں۔ المخرؔ پانی کو سینہ کے زور سے چیرنا۔ فِیْہِ کا مطلب سمندر میں۔ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ (تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو) اس کا محذوف پر عطف ہے یعنی تاکہ تم عبرت حاصل کرو اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ ابتغائے فضل سے تجارت مراد ہے۔ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (اور تاکہ تم شکریہ ادا کرو) اللہ تعالیٰ کا اس انعام پر جو اس نے تم پر کیا۔
Top