Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 71
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا١ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْكُمْ : تم میں سے اِلَّا : مگر وَارِدُهَا : یہاں سے گزرنا ہوگا كَانَ : ہے عَلٰي : پر رَبِّكَ : تمہارا رب حَتْمًا : لازم مَّقْضِيًّا : مقرر کیا ہوا
اور تم میں سے کوئی (شخص) نہیں مگر اسے اس پر گزرنا ہوگا۔ یہ تمہارے پروردگار پر لازم اور مقرر ہے۔
جہنم پر ورود : 71: وَّاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا ( اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں مگر کہ اس نے دوزخ پر وارد ہونا ہے) وارد کا معنی یہاں داخل ہے اور ھا سے مراد نار ہے جمہور اہلسنّت کے نزدیک ورود کا معنی یہاں دخول ہے جیسا کہ یہ حضرت علی اور ابن عباس ؓ سے مروی ہے اس لئے کہ دوسرے ارشاد میں فرمایا :اور دھم النار ] سورة ہود : 98[ اور ایک اور ارشاد میں ہے : لو کان ھٰؤلاء الھۃ ما وردوھا [ الانبیاء : 99] اور ایک اور ارشاد میں اس طرح فرمایا : ثم نُنَجِّی الذی اتقوا ] مریم : 72[ کیونکہ نجات کا تصور داخلے کے بعد ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی جس کو امام احمد نے روایت کیا الورود کا معنی دخول ہے۔ لا یبقی بر و لا فاجر الا دَخَلَہَا فتکون علی المؤمنین بردًا و سلاما کما کان تلی ابراہیم ] رواہ احمد[ دوسری روایت میں ہے کہ آگ مومن کو کہے گی جز یا مومن فان نورک اطفاک لَھَبِی ] رواہ طبرانی[ دوسرا قول یہ ہے کہ ورود دخول ہی کے معنی میں ہے لیکن یہ کفار کے ساتھ خاص ہے جیسا کہ قراءت ِ ابن عباس ؓ میں سے وان منھمپس قراءت مشہورہ کو التفات پر محمول کیا جائے گا۔ اور ایک قول کے مطابق جو حضرت عبد اللہ ؓ سے منقول ہے کہ ورود کا معنی حضور ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَلَما ورد ماء مدین ] القصص : 23[ اور دوسرے ارشاد میں فرمایا : اولٰٓئِک عنھا مُبعَدون ] الانبیائ : 101[ تو عنہا میں ھا سے مراد جہنم ہے۔ مگر اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ھا سے مراد اس کا عذاب ہے۔ حضرت حسنو قتادہ رحمہما اللہ کا قول : کہ ودود یہاں مرور علی الصراط کے معنی میں ہے کیونکہ صراط جہنم کے اوپر بنا ہوا ہے پس اہل جنت اس سے بچے رہیں گے اور اہل نار اس میں گرتے جائیں گے۔ مجاہد کا قول : یہ ہے کہ مومن کا آگ میں وارد ہونا اس پر ہوگا جس طرح دنیا میں بخار اس کے جسم میں چڑھ جاتا ہے اس لئے آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ بخار آگ میں سے ہر مومن کا حصہ ہے۔ (رواۃ البزاز) ایک صحابی ؓ نے دوسرے کو کہا کہ کیا تمہیں ورود نار کا یقین ہے ؟ اس نے کہا ہاں اس نے کہا کہ کیا تمہیں واپس لوٹنے کا یقین ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ اس نے کہا پھر ہنستے کیوں ہو اور بوجھل کیوں بنتے ہو۔ (رواہ احمد فی الزہد) کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ( یہ تیرے رب کے ذمے لازم ہے جو ضرور پورا ہو کر رہے گا) یعنی ان کا ورود لازم ہے۔ جس جس کا فیصلہ ہوچکا۔ الحتمؔ یہ مصدر ہے حتم الا مر کا۔ یہ اس وقت کہا جاتا ہے جبکہ اس کام کو اپنے اوپر لازم کرلے اور پس اس اس کا نام موجب رکھا جاتا ہے جیسے ان کا قول ہے ضرب الامیر۔
Top