Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 98
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ١ؕ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا۠   ۧ
وَكَمْ : اور کتنے ہی اَهْلَكْنَا : ہم نے ہلاک کردئیے قَبْلَهُمْ : ان سے قبل مِّنْ : سے قَرْنٍ : گروہ هَلْ : کیا تُحِسُّ : تم دیکھتے ہو مِنْهُمْ : ان سے مِّنْ اَحَدٍ : کوئی۔ کسی کو اَوْ تَسْمَعُ : یا تم سنتے ہو لَهُمْ : ان کی رِكْزًا : آہٹ
اور ہم نے ان سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کردیا ہے بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یا (کہیں) ان کی بھنک سنتے ہو ؟
تخویف کفار : 98: وَکَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَھُمْ مِّنْ قَرْنٍ ( اور ہم نے ان سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کیا) اس میں اہل مکہ کیلئے تخویف و انذار ہے (کہ ان کو ان سے عبرت حاصل کرنا چاہیے) ھَلْ تُحِسُّ مِنْھُمْ مِّنْ اَحَدٍ (کیا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو) یعنی کیا تم پاتے ہو۔ نمبر 2۔ دیکھتے ہو نمبر 3۔ جانتے ہو۔ الاحساسؔ حاسہ سے کسی چیز کو جاننا۔ اَوْتَسْمَعُ لَھُمْ رِکْزًا یا (ان کی آہٹ سنتے ہو) ۔ رکزاؔ ہلکی آواز، الرکازؔ اسی سے ہے۔ یعنی جب ہمارا عذاب آیا تو کوئی ایسا شخص باقی نہ رہا جو نظر آسکے۔ اور کوئی آواز باقی نہ تھی جو سنائی دے۔ مطلب یہ ہے تمام ہلاکت کے گھاٹ اتر گئے۔ پس انکا حشر بھی ایسا ہونے والا ہے اگر انہوں نے قرآن میں تدبر سے اعراض قائم رکھا۔ پھر انکا انجام ہلاکت ہی ہے۔ پس انکا معاملہ آپ پر گراں نہ گزرنا چاہیے۔ تمت ترجمۃ سورة مریم ثما نیۃ عشر من رمضان 1423؁ھ من الہجرۃ یوم الاحد قبل الظہر والحمدللہ علی ذلک
Top