Madarik-ut-Tanzil - Al-Israa : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
وَمَایَشْعُرُوْنَ : (اور وہ محسوس نہیں کرتے) ۔ نتیجہ : ان کے دھوکہ کا نتیجہ دوسروں کی طرف سے ان کی طرف ہی لوٹنے والا ہے۔ معنی شعور : الشعور : کسی چیز کا حس سے معلوم کرنا۔ یہ شعار سے لیا گیا ہے۔ شعار وہ کپڑا ہے جو جسم کے قریب ہوتا ہے (بنیان وغیرہ) مشاعر الانسان : انسانی حواس کو کہتے ہیں کیونکہ شعور کے آلات یہی ہیں۔ اب معنی یہ ہوگا۔ ان کو اس کا ضررحسی چیز کی طرح پہنچ رہا ہے۔ اور وہ اپنی طویل غفلت کی وجہ سے اس شخص کی طرح ہوگئے ہیں جس میں حس ہی نہ ہو۔ فِیْ قُلُوْ بِھِمْ مَّرَضٌ : (ان کے دلوں میں بیماری ہے) یعنی شک ونفاق، شک، دو معاملوں میں تردد کو کہتے ہیں۔ اور منافق مترددہوتا ہے۔ حدیث میں فرمایا : مثل المنافق کمثل الشاۃ العائرۃ بین الغنمین۔ (احمد، مسلم، نسائی) منافق کی مثال اس بکری جیسی ہے جو دونوں گلوں سے الگ ہو۔ مریض : موت و زندگی کے درمیان متردد ہوتا ہے۔ کیونکہ مرض صحت کی ضد ہے۔ اور فساد صحت کے مقابل ہے۔ اسی وجہ سے ہر بگاڑ کا نام مرض بن گیا۔ شک اور نفاق یہ دل کے فساد ہیں۔ فَزَا دَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا : (پس اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری بڑھا دی) یعنی غلبہ سے کمزوری اور اقتدار سے عاجزی اور بڑھ گئی یہ بھی کہا گیا۔ کہ اس سے مراد نفاق کا پیدا کرنا ہے جبکہ اس جیسا نفاق ان کے دلوں میں پہلے ہی تھا جیسا کہ زیادتی ایمان میں معلوم ہوچکا۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌم : (اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے) ۔ نحویوں کا قول : نحو : الیم فعیل کے وزن پر بمعنی مفعل ہے یعنی مولم (دردناک) بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ : (اس سبب سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے) یعنی ٰامنا باللہ وبالیوم الاٰخر کے قول میں جھوٹ کے سبب۔ ما، فعل کے ساتھ مل کر مصدر کا معنی دے رہا ہے۔ کسی چیز میں پائی جانے والی حقیقت کے خلاف اس چیز کے متعلق خبر دینا۔ دیگر قرائ : یُکَذِّبُوْنَ پڑھتے ہیں۔ یعنی ان چیزوں کی تکذیب کر کے جن کو آپ لے کر آئے ہیں۔ بعض نے کہا۔ یہ کذب میں مبالغہ کے لیے لایا گیا۔ شدید سے لائے، جیسا کہ صدق میں مبالغہ کے لیے کہتے ہیں۔ صدق۔ ان دونوں کی نظیربان اور بین کا لفظ ہے۔ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ : (جب ان سے کہا گیا) اس کا عطف یقول اٰمنّا پر ہے کیونکہ جب تم اس طرح کہو گے۔ کہ لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے۔ (لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ ) (کہ زمین میں فساد مت مچائو) تو یہ تعبیر صحیح ہے۔ اصلاح و فساد : الفساد : کسی چیز کا اس کی درست حالت اور فائدہ مند حالت سے نکل جانا اس کی ضد الصلاح ہے۔ الصلاح : صلاح کسی چیز کو اس کی درست ونفع بخش حالت میں پالینا۔ فساد فی الارض : سے مراد لڑائی اور فتنے کا بھڑکانا۔ کیونکہ اس کی وجہ سے زمین میں جو چیزیں ہیں۔ ان کو بگاڑنا۔ اور لوگوں کے حالات اور کھیتوں اور منافع دینی و دنیوی کو میانہ روی سے ہٹا نا ہے۔ منافقین کا زمین میں فساد یہ تھا۔ کہ وہ کفار کو مائل کرتے اور مسلمانوں کے راز کھول کر کفار کو مسلمانوں کے خلاف آمادہ برشرارت کرتے اور ابھارتے۔ اور یہ امر فتنوں کے بھڑکانے کا باعث بنتا تھا۔ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ : (وہ کہتے ہیں بیشک ہم اصلاح کرنے والے ہیں) ہم مؤمنوں اور کافروں میں حسن سلوک سے درستگی واصلاح کرنے والے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اصلاح کی صفت خاص ہم میں پائی جاتی ہے اور ہمارے ساتھ مخصوص ہے اس میں ممانعت کا کوئی شائبہ اور فساد کی کوئی صورت ملی ہوئی نہیں ہے۔ فائدہ : اٰمنَّا کا کلمہ کسی چیز میں حکم کو بند کرنے کے لیے آتا ہے۔ یا کسی چیز کو حکم میں بند کرنے کیلئے آتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں۔ انما ینطلق زیدٌ۔ بیشک زید جانے والا ہے اور کوئی نہیں بیشک زید ہی کاتب ہے اور کچھ نہیں۔ مَا۔ کافہ ہے کیونکہ یہ ان کو عمل سے روک دیتا ہے۔ اَلآَ اِنَّھُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ : (سنو یہی لوگ فسادی ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں) بیشک وہی فسادی ہیں۔ مفعول کے معلوم ہونے پر حذف کردیا۔
Top