Madarik-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 186
وَ مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَ اِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَۚ
وَمَآ اَنْتَ : اور نہیں تو اِلَّا : مگر۔ صرف بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُنَا : ہم جیسا وَاِنْ نَّظُنُّكَ : اور البتہ ہم گمان کرتے ہیں تجھے لَمِنَ : البتہ۔ سے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اور تم اور کچھ نہیں ہم ہی جیسے آدمی ہو اور ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو
186: وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا (اور توُ تو ہم جیسا انسان ہے) نکتہ : یہاں وائو کو داخل اس لئے کیا تاکہ دو معنے دے اور وہ دونوں ان کے ہاں رسالت کے منافی تھے۔ نمبر 1۔ التسحیر۔ نمبر 2۔ البشریت۔ قصہ ثمود (علیہ السلام) میں ایک کو چھوڑنا اس وجہ سے ہے تاکہ ایک معنی کا فائدہ دے اور وہ ان کا جادو زدہ ہونا ہے پھر ان جیسا انسان ہونے کا اقرار کیا۔ وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ (اور ہم بلاشبہ تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں) یہ ان مخففہ من المثقلہ ہے اور انؔ نافیہ اور اس کے مابین فرق کیلئے لامؔ کو یہاں داخل کیا گیا ہے۔ اور یہ دونوں فعل ظن پر بھی الگ الگ داخل ہوجاتے ہیں۔ اور اس کے دونوں میں سے دوسرے مفعول پر بھی کیونکہ دونوں میں اصل یہ ہے کہ وہ مبتدأ وخبر سے جدا ہوجائیں جیسے کہتے ہیں۔ ان زیدًا لمنطلق جب کان اور ظننت دونوں مبتدأ اور خبر کی جنس سے تھے۔ اس لئے دونوں موقعوں پر ان لایا جاتا ہے ان کان زیدٌ لمنطلقا اور ان ظننتہٗ لمنطلقا۔
Top