Madarik-ut-Tanzil - Al-Qasas : 26
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ١٘ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ
قَالَتْ : بولی وہ اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک يٰٓاَبَتِ : اے میرے باپ اسْتَاْجِرْهُ : اسے ملازم رکھ لو اِنَّ : بیشک خَيْرَ : بہتر مَنِ : جو۔ جسے اسْتَاْجَرْتَ : تم ملازم رکھو الْقَوِيُّ : طاقتور الْاَمِيْنُ : امانت دار
ایک لڑکی بولی ابا ان کو نوکر رکھ لیجئے کیونکہ بہتر نوکر جو آپ رکھیں وہ ہے (جو) توانا اور امانتدار (ہو)
26: قَالَتْ اِحْدٰہُمَا یٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْہُ (ان میں سے ایک نے کہا اے ابا جی ! اس کو اجیر بنالیں) ۔ اس کو بکریاں چرانے والا مزدور بنالیں۔ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجِرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ (ان میں سے بہتر جس کو آپ مزدور بنائیں جو امانت دار اور طاقتور ہو) ۔ شعیب (علیہ السلام) نے کہا تمہیں اس کی امانت وقوت کا کیسے علم ہوا۔ اس نے ڈول والا واقعہ ذکر کردیا اور پیچھے چلنے کا حکم دینے والے واقعہ کا۔ نکتہ : استأجرت ماضی کے لفظ سے لائے۔ تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ اس کی امانت و قوت دونوں قطعی چیزیں ہیں۔ اور لڑکی کا مقولہ ان خیر من استأجرت القوی الامین۔ یہ جامع کلام ہے۔ اس میں اس نے بتلا دیا کہ جب اس ذمہ دار میں یہ دو خصلتیں جمع ہوجائیں۔ تو آپ کا دل خدشات سے خالی ہوجائے گا اور مقصود بھی حاصل ہوجائے گا۔ ایک قول : القوی سے قوی فی الدین مراد ہے۔ الامین۔ امین ہمسائیگی میں۔ اس مثل کے قائم مقام کلام نے اس قسم کی باتوں سے بےنیاز کردیا۔ استأجرہ لقوتہ وامانتہٖ ۔ قول ابن مسعود۔ : لوگوں میں فراست والے تین آدمی گزرے ہیں۔ نمبر 1۔ شعیب (علیہ السلام) کی لڑکی جس نے یہ کہا۔ نمبر 2۔ یوسف (علیہ السلام) کا صاحب جس نے عسی ان ینفعنا (یوسف۔ 21) کہا۔ نمبر 3۔ ابوبکر صدیق جنہوں نے عمر ؓ کو خلیفہ بنایا۔
Top