Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 75
وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْهِ قَآئِمًا١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ١ۚ وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَمِنْ : اور سے اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مَنْ : جو اِنْ : اگر تَاْمَنْهُ : امانت رکھیں اس کو بِقِنْطَارٍ : ڈھیر مال يُّؤَدِّهٖٓ : ادا کردے اِلَيْكَ : آپ کو وَمِنْھُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو اِنْ : اگر تَاْمَنْهُ : آپ امانت رکھیں اس کو بِدِيْنَارٍ : ایک دینار لَّا يُؤَدِّهٖٓ : وہ ادا نہ کرے اِلَيْكَ : آپ کو اِلَّا : مگر مَا دُمْتَ : جب تک رہیں عَلَيْهِ : اس پر قَآئِمًا : کھڑے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ قَالُوْا : انہوں نے کہا لَيْسَ : نہیں عَلَيْنَا : ہم پر فِي : میں الْاُمِّيّٖنَ : امی (جمع) سَبِيْلٌ : کوئی راہ وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ بولتے ہیں عَلَي : پر اللّٰهِ : پر الْكَذِبَ : جھوٹ وَھُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
اور اہل کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے پاس ڈھیر امانت رکھ دو تو تم کو (فورا) واپس دیدے اور کوئی اس طرح کا ہے کہ اگر اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھو تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو تمہیں دے ہی نہیں۔ یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ امیوں کے بارے میں ہم سے مواخذہ نہیں ہوگا یہ خدا کو محض جھوٹ بولتے ہیں اور اسی بات کو جانتے بھی ہیں
یہود میں امین اور خائن طبقہ : 75: وَمِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْ مَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْ مَنْہُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَآپمًا ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُ مِّیّٖنَ سَبِیْلٌ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ ۔ (اہل کتاب میں بعض ایسے لوگ ہیں کہ اگر آپ ان کے پاس ایک خزانہ امانت رکھیں وہ اس کو تمہیں ادا کردیں) وہ عبداللہ بن سلام ؓ ہیں کہ انہوں نے قریش کے ایک آدمی سے بارہ سو اوقیہ سونا لیا۔ انہوں نے واپس ادا کردیا۔ وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْ مَنْہُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ (ان میں بعض وہ ہیں کہ اگر تم ان کو ایک دینار بطور امانت دو تو بھی تمہیں ادا نہ کریں) اسکا مصداق فخاص بن عازوراء تھا کہ جس کے پاس ایک قریشی نے ایک دینار بطور امانت رکھا تو اس نے انکار کردیا۔ اور کھا پی گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ یہود میں غلبہ خیانت کی وجہ سے امین قلیل اور نصاریٰ میں غلبہ امانت کی وجہ سے خائن قلیل ہیں۔ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَآ پمًا (مگر اتنی مدت کہ تم اس پر ہمیشگی کرو) یا صاحب حق اسکے سر پر مسلط رہے۔ اور اس کو لازم پکڑ لے۔ قراءت : یُؤَ دِّہٖٓ اور لایُؤَدِّہٖٓ ۔ ھا کے کسرہ کو اشباع کے ساتھ مکی، شامی، نافع، علی اور حفص نے پڑھا ہے۔ جبکہ ابو عمرو کی ایک روایت میں اختلاس اور دوسروں نے سکون ہاء سے پڑھا ہے۔ ذٰلِک کا مشارٌ الیہ ترک اداء ہے۔ جس پر لایِؤدِہٖٓ دلالت کر رہا ہے۔ بِاَنَّھُمْیہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں۔ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُ مِّیّٖنَ سَبِیْلٌ یعنی انہوں نے ادائیگی حقوق اس وجہ سے ترک کی ہے کہ وہ کہتے ہیں۔ لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُ مِّیّٖنَ سَبِیْلٌ (کہ ان پڑھوں کا مال کھانے میں ہمیں کچھ گناہ نہیں) مقصد انکا یہ تھا کہ جو اہل کتاب نہیں ہم انکا مال کھائیں۔ ان کو نقصان پہنچائیں ہمیں کچھ گناہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ ہمارے دین پر نہیں وہ اپنے مخالفین پر ظلم کو حلال قرار دیتے اور کہا کرتے تھے۔ ہماری کتاب میں اس کو حرام قرار دیا دیا گیا۔ (بقول کسے۔ رام، رام جپنا پرایا مال اپنا یہ انکا مذہب تھا) یہ بھی کہا گیا کہ بعض یہود نے کسی قریشی سے سودا کیا۔ جب وہ قریشی مسلمان ہوگئے تو انہوں نے مال کا تقاضہ کیا تو یہود نے کہا تمہارا ہمارے ذمہ کوئی حق نہیں اس لئے کہ تم نے اپنا دین چھوڑ دیا اور کہنے لگے کہ یہ ہماری کتاب کا مسئلہ ہے۔ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ (وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں) یہ دعویٰ کر کے کہ یہ بات انکی کتاب میں موجود ہے۔ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ (حالانکہ وہ جانتے ہیں) کہ وہ جھوٹے ہیں۔
Top