Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 76
بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَ اتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
بَلٰي : کیوں نہیں ؟ مَنْ : جو اَوْفٰى : پورا کرے بِعَهْدِهٖ : اپنا اقرار وَاتَّقٰى : اور پرہیزگار رہے فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
ہاں جو شخص اپنے اقرار کو پورا کرے اور (خدا سے) ڈرے تو خدا ڈرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
دعویٔ بےگناہی کی تردید : 76: بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَاتَّقٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ۔ بَلٰی (کیوں نہیں) ان پڑھوں کا مال کھانے میں بےگناہی کے دعویٰ کی تردید ہے۔ کہ ان پر ضرور گناہ ہوگا۔ مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَاتَّقٰی جو شخص اپنے عہد کو پورا کرے اور اللہ سے ڈرے یہ جملہ مستانفہ ہے یہ اس جملہ کیلئے دوبارہ لایا گیا۔ جس کے قائم مقام بَلٰیہے۔ بِعَھْدِہٖ کی ضمیر ہٖ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے۔ یعنی ہر وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو پورا کیا اور اس سے ڈرا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو متقی لوگ پسند ہیں۔ نکتہ : یہاں ضمیر ھم کی بجائے الْمُتَّقِیْنَ ۔ اسم ظاہر کو لائے پھر ضمیر کا مرجع خاص مَنْ تھا۔ اسکی بجائے متقین کو عام کردیا۔ تاکہ اس میں ایمان اور دیگر تمام صالحات داخل ہوجائیں اور کفر وغیرہ اور دیگر برے اعمال جن سے بچنا ضروری ہے۔ ان سے پرہیز کو بھی تقویٰ میں شامل کردیا۔ تارکین خیانت اللہ کو پسند ہیں : دوسرا قول یہ ہے کہ عبداللہ بن سلام ؓ اور انہی جیسے اہل کتاب میں سے ایمان لانے والے اس سے مراد ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ضمیر مَنْ اَوْفٰی کی طرف لوٹانی جائز ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ شخص جس نے اس معاہدہ کو پورا کیا جو اللہ تعالیٰ سے کر رکھا تھا۔ اور ترک خیانت و غدر میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہا اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتے ہیں۔
Top