Tafseer-e-Jalalain - Adh-Dhaariyat : 4
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمینوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا
امانت کی وضاحت : 72: اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (بےشک ہم نے امانت آسمانوں اور زمین) ۔ وَالْجِبَالِ (ور پہاڑوں پر پیش کی) امانت سے مراد اطاعت اللہ ہے۔ اور حمل امانت سے مراد خیانت ہے عرب کہتے ہیں فلان حامل الا مانۃ ومحتمل لھا ای لا یؤدیہا الی صاحبھا حتی تزول عن ذمتہٖ یعنی وہ اس کو ادا نہیں کر تاکہ مالک کو پہنچ کر اس کے ذمہ سے اتر جائے۔ اس لئے کہ امانت گویا کہ مؤتمن پر سوار ہوتی ہے اور وہ اس کی سواری ہوتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے رکبتہؔ الدیون، ولی علیہ حق، وہ اس کو ادا کر دے تو وہ اس پر سوار نہیں رہتی اور نہ وہ حامل کہلا سکتا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ اجسام عظام یعنی آسمان ‘ زمین، پہاڑ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے پورے طور پر مطیع ہیں۔ اور وہی ہے جو جمادات سے کام لینا جانتا ہے اور وہ اس کی ذات کیلئے اس کے لائق تعریف کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ اطاعت انجام دیتے ہیں جو اطاعت ان کے لائق ہے۔ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت و ارادہ سے کوئی ایجاد وتکوین ممتنع نہیں اس نے مختلف حالتوں اور قسم قسم کی اشکال کو ٹھیک ٹھیک بنادیا۔ جیسا کہ فرمایا۔ ثم استوی الی السماء وھی دخان فقال لھا وللارض ائْتِیا طوعا اوکر ھا قالتا اتینا طائعین ] فصلت : 11[ اور اس نے خبر دی کہ سورج، چاند، نجوم، جبال، اشجار و دو اب اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اور بعض پتھر اللہ تعالیٰ کے خوف سے گرپڑتے ہیں۔ لیکن حضرت انسان کی حالت وہ نہیں جو اس کی ہونی چاہیئے اور جو اطاعت شعاری اور فرما نبرداری اس کے مناسب ہے۔ وہ اس نے اختیار نہیں کی۔ یہ حیوان عاقل ہے اور اس کو مکلف بنایا گیا۔ اس کی حالت ان جمادات جیسی ان چیزوں میں نہیں جو ان سے بھی درست طور پر ہو رہی ہیں اور جوا طاعت ان کے مناسب ہے اور جس سے وہ باز نہیں رہ سکتے۔ اور یہی معنی فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا ہے ( انہوں نے اس کی ذمہ داری سے انکار کردیا) مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس میں خیانت اور عدم ادائیگی سے انکار کردیا۔ (حاصل یہ ہے کہ عرض سے فطری صلاحیت اور انکار سے لیاقت و صلاحیت کا فقدان اور اٹھانے سے مراد قابلیت و استعداد ہے (مترجم) وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا (اور اس سے ڈر گئے) اس میں خیانت سے ڈر گئے۔ وَحَمَلَھَا الْاَنْسَانُ (اور انسان نے اس کو اٹھا لیا) یعنی اس میں خیانت کی اور اس نے انکار کردیا مگر اس بات سے وہ اس کو اٹھائے گا اور اس کو ادا نہ کرے گا۔ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا (بیشک وہ ظالم ہے) کیونکہ وہ امانت کی ادائیگی کو چھوڑنے والا ہے۔ جَہُوْلًا (جاہل ہے) کیونکہ وہ سعیدبنانے والی چیز کو بھلانے والا ہے۔ حالانکہ اس کو اس پر قدرت حاصل ہے اور وہ قدرت اس کی ادائیگی ہی ہے۔ قول زجاج (رح) : کافر و منافق نے امانت کو اٹھایا۔ یعنی خیانت کی اور اطاعت نہ کی اور جس نے اطاعت اختیار کی جیسے انبیاء (علیہم السلام) اور مومن ان کو ظلوم جہول نہ کہا جائیگا۔ ایک قول ہے کہ آیت کا معنی یہ ہے انسان کا مکلف بنایا جانا یہ اس کی انتہائی عظمت ہے اس لئے کہ یہی چیز مخلوقات الٰہی میں سے جو بڑے اجرام و اجسام اور زیادہ قوت والے ہیں ان پر پیش کی گئی تو انہوں نے یہ ذمہ داری اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے۔ انسان نے اپنے ضعف و کمزوری کے باوجود اس کو اٹھا لیا۔ بیشک یہ ظلوم و جہول ہے۔ اس حیثیت سے کہ اس نے امانت تواٹھالی پھر اس کو پورا نہیں کیا۔ ضامن تو بن گیا پھر اپنی ضمانت میں خیانت کی۔ کلام عرب میں ایسے انداز کلام کی بہت مثالیں ملتی ہیں۔ اور قرآن مجیداسلوب عرب کے مطابق آیا ہے۔ مثلاً عرب کا قول ہے لوقیل للشحم این تذھب ؟ قال اسوّی العوج۔ اگر چربی کو کہیں تو کہاں جائے گی۔ تو وہ ضرور یہ جواب دیتی میں ٹیڑھ کو درست کرونگی۔
Top