Madarik-ut-Tanzil - Az-Zumar : 65
وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ لَئِنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
وَلَقَدْ اُوْحِيَ : اور یقینا وحی بھیجی گئی ہے اِلَيْكَ : آپ کی طرف وَاِلَى : اور طرف الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكَ ۚ : آپ سے پہلے لَئِنْ : البتہ اگر اَشْرَكْتَ : تو نے شرک کیا لَيَحْبَطَنَّ : البتہ اکارت جائیں گے عَمَلُكَ : تیرے عمل وَلَتَكُوْنَنَّ : اور تو ہوگا ضرور مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
اور (اے محمد ﷺ تمہاری طرف اور ان (پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تم زیاں کاروں میں ہوجاؤ گے
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ، اور آپ کی طرف بھی اور وہ پیغمبر جو آپ سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ وحی بھیجی جا چکی یعنی انبیاء (علیہم السلام) کی طرف۔ کلام علی سبیل الفرض : لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ، کہ اے عام مخاطب اگر تو شرک کرے گا تو تیرا کیا کرایا کام غارت ہوجائے گا، اور تو خسارہ میں پڑے گا۔ اور بلاشبہ فرمایا لئن اشرکت علی التوحید، صیغہ مخاطب مفرد کا استعمال کیا۔ حالانکہ انبیاء (علیہم السلام) تو بہت بڑی جماعت ہے۔ کیونکہ اس کا معنی اس طرح ہے اوحی الیک لئن اشرک لیحطبن عملک والی الذین من قبلک مثلہ آپ کی طرف وحی کی گئی اگر بالفرض تم نے شریک ٹھہرایا ضرور بضرور تمہارے عمل ضائع ہوجائیں گے اور ان لوگوں کی طرف بھی آپ سے پہلے ہوئے اس کی مثل وحی کی گئی۔ لئن کی لام قسم محذوف کی تمہید کیلئے لائی گئی ہے اور دوسری لام جواب قسم کیلئے ہے۔ اور یہ لیحطبن کا جواب دو جوابوں کے قائم مقام ہے۔ میرا مطلب دو جوابوں سے قسم و شرط کا جواب ہے یہ کلما صحیح ہے یا وجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول (علیہم السلام) اس کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے، کیونکہ اس میں صیغہ خطاب نبی کریم ﷺ کیلئے لایا گیا ہے۔ اور مراد اس سے آپ کا غیر ہے۔ اور یہ بھی وجہ ہے کہ یہ کلام علی سبیل الفرض ہے اور محالات کو فرض کرنا درست ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اگر سر میں میرے سوا اور کی طرف جھانکا تو وہ سر جو میرے اور تمہارے مابین ہے وہ ختم ہوجائے گا۔
Top