Madarik-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 19
فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍ١ۘ لَكُمْ فِیْهَا فَوَاكِهُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَۙ
فَاَنْشَاْنَا : پس ہم نے پیدا کیے لَكُمْ : تمہارے لیے بِهٖ : اس سے جَنّٰتٍ : باغات مِّنْ : سے۔ کے نَّخِيْلٍ : کھجور (جمع) وَّاَعْنَابٍ : اور انگور (جمع) لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں فَوَاكِهُ : میوے كَثِيْرَةٌ : بہت وَّمِنْهَا : اور اس سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
پھر ہم نے تمہارے لیے اس کے ساتھ کھجوروں اور انگوروں کے کئی باغ پیدا کیے، تمہارے لیے ان میں بہت سے لذیذ پھل ہیں اور انھی سے تم کھاتے ہو۔
فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنّٰتٍ : پانی اتارنے کے ذکر کے بعد حیات بعد الموت پر دلالت کرنے والی چند چیزیں ذکر فرمائیں، پہلی یہ کہ ہم نے اس پانی کے ساتھ (اپنے لیے نہیں بلکہ) تمہارے لیے کئی قسم کے باغات پیدا فرمائے۔ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ : ”نَّخِيْلٍ“ کھجور کے درخت، ”اَعْنَابٍ“ ”عِنَبٌ“ کی جمع ہے، انگور کا پھل۔ کھجور اور انگور کا خصوصاً ذکر ان کے بیشمار فوائد کی وجہ سے فرمایا، کیونکہ انھیں دوسرے تمام پھلوں پر برتری حاصل ہے، جیسا کہ فرشتوں میں جبریل اور میکال کا خصوصاً الگ ذکر کیا، فرمایا : (مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ) [ البقرۃ : 98 ] ”جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بیشک اللہ کافروں کا دشمن ہے۔“ اور اس لیے بھی کہ عرب میں یہ دونوں پھل زیادہ پائے جاتے ہیں۔ انگور کے پھل کے ذکر سے پہلے کھجور کے پھل کے بجائے اس کے درخت کا ذکر فرمایا، کیونکہ کھجور کا درخت پھل کے علاوہ بھی بہت سے فوائد رکھتا ہے۔ اس کا ہر حصہ کارآمد ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے شجرۂ طیبہ قرار دے کر کلمہ طیبہ کی مثال اس کے ساتھ دی ہے، فرمایا : (اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ) [ إبراھیم : 24 ] ”کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے۔“ کھجور کے درخت کے ضمن میں وہ تمام درخت بھی آگئے جن کے پھل پھول، پتے، چھال اور لکڑی ہر چیز کارآمد ہے۔ لَكُمْ فِيْهَا فَوَاكِهُ كَثِيْرَةٌ۔۔ : اللہ تعالیٰ اپنے احسانات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بار بار ”لَکُم“ کا لفظ دہرا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ تمہارے لیے ہے، ہمارے لیے نہیں، یعنی تمہارے لیے ان باغات میں کھجور کے درختوں اور انگوروں کے علاوہ بہت سے لذیذ پھل ہیں۔ وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ : اس جملے کے جملہ اسمیہ پر عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے ایک جملہ فعلیہ محذوف ہے : ”أَيْ مِنْھَا (وَ ھِيَ طَرِیَّۃٌ) تَتَفَکَّھُوْنَ وَ مِنْھَا تَأْکُلُوْنَ“ یعنی تم ان کے بعض سے تازہ ہونے کی حالت میں لذت حاصل کرتے ہو اور خشک کرکے یا رس اور روغن نکال کر بعد میں بھی اور یہی تمہاری خوراک کا ایک حصہ بنتے ہیں۔ (بقاعی) ”وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ“ میں یہ بھی شامل ہے کہ انھی کی آمدنی سے سارا سال تمہارے کھانے پینے اور دوسری ضروریات زندگی کا بند و بست ہوتا ہے۔
Top