Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 73
اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْئًا وَّ لَمْ یُظَاهِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتُّمْ : تم نے عہد کیا تھا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع) ثُمَّ : پھر لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ : انہوں نے تم سے کمی نہ کی شَيْئًا : کچھ بھی وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا : اور نہ انہوں نے مدد کی عَلَيْكُمْ : تمہارے خلاف اَحَدًا : کسی کی فَاَتِمُّوْٓا : تو پورا کرو اِلَيْهِمْ : ان سے عَهْدَهُمْ : ان کا عہد اِلٰى : تک مُدَّتِهِمْ : ان کی مدت اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اس کو زبردست قوت والے نے سکھایا ہے
اس کو بہت زبردست قوت والے نے سکھایا ہے 5 ؎ وہ کون ہے جو مضبوط قوتوں والا ہے ؟ اس کائنات کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو مخلوق پیدا ہے خواہ وہ ہے جو نظر آتی ہو اور خواہ وہ ہے جو انسانی ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی لیکن عقل اس کو دیکھتی ہے۔ اس مخلوق میں اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی قوت رکھی ہے اور اس کی مخلوق کی قوت کا پورا اندازہ ابھی انسان نہیں لگا سکا اور شاید کبھی بھی نہ لگا سکے۔ نہ نظر آنے والی چیزوں میں صرف ایک ہوا کو لے لیں کیا اس کی قوت کا اندازہ ابھی تک انسان لگا سکا ہے ؟ یقینا نہیں پھر ہوا ایک ہی قسم کی ہے ؟ نہیں اس کی بہت سی اقسام ہیں کیونکہ جتنی گیسیں دریافت ہوتی ہیں ان کی قوتوں کا بھی انسان مکمل طور پر اندازہ نہیں کرسکا بلکہ ابھی تک وہ مکمل طور پر دریافت ہی نہیں ہو سکیں اور ابھی کتنی ہیں جن کو دریافت ہونا ہے اور لاریب وہ اس فضا میں فضا کے ان سیاروں میں بلکہ ان سے اوپر اور اس زمین کی سطح کے نیچے دبی پڑی ہیں اور قرآن کریم کے اشارات و استعارات ان کا کھلا پتہ دے رہے ہیں لیکن اس ساری کائنات میں سے افضل واعلیٰ وہ مخلوق ہے جس کو انسان کا نام دیا گیا ہے جو ان کو دریافت کرنے کے درپے ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کو مشاہدہ میں تبدیل کر رہا ہے۔ لیکن ان ساری قوتوں اور طاقتوں سے ارفع و اعلیٰ طاقت و قوت اسی رب ذوالجلال والاکرام کی ہے جو ان ساری طاقتوں اور قوتوں کا خالق ومالک ہے۔ انسان چونکہ مکلف ہے اس کو بذریعہ وحی سمجھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی طاقتیں اور قوتیں مخلوق کی ہیں ان میں سے ایک مخلوق بھی اییا نہیں جس کو ارادہ و اختیار کی قوت دی گئی ہو اس میں سے جتنا اور جیسا کیسا حصہ بھی ملا ہے وہ فقط اس حضرت انسان کو ملا ہے جو اپنی بود و باش اور معاشرت کے لحاظ سے دو اصناف میں تقسیم کیا گیا ہے وہ جو مدنی الطژبع ہے اس کا نام تو انسان ہی رہا لیکن جو بدوی و سفری طبع ہو کر پہاڑوں اور جنگلوں میں رہنا پسند کرتا ہے اس پر مکلف ” جن “ کا اطلاق کیا گیا ہے اور چونکہ دونوں کا اصل ایک ہے اس لئے اس کی اصل ہی سے انبیاء کرام اور رسل عظام (علیہ السلام) کا سلسلہ جاری کیا گیا تھا جو نبیا عظم و آخر ﷺ پر لا کر ختم کردیا گیا ہے۔ سارے نبیوں اور رسولوں کی طرح نبی اعظم و آخر ﷺ کو بھی تعلیم دینے والا اور علم سکھانے والا براہ راست اللہ تعالیٰ ہے۔ آپ ﷺ نے بھی وہ کچھ سیکھا جو دنیا کے کسی انسان کو نہ سکھایا گیا اور آپ ﷺ نے وہ پڑھا جو دنیا کے کسی ایک انسان کو بھی نہ پڑھایا گیا لیکن آپ ﷺ نے جو سیکھا اور جو پڑھا براہ راست رب ذوالجلال والا کرام سے پڑھا اور سیکھا۔ ہاں ! اللہ رب کریم کی سکھانے اور پڑھانے کی قوت کا نام جبریل ہے جو کوئی مرئی چیز نہیں بلکہ محض ایک قوت و طاقت ہے جیسے دوسرے ان گنت فرشتے ‘ ہاں ! ان ساری قوتوں اور طاقتوں سے بڑی طاقت اور قوت کا نام جبریل (علیہ السلام) ہے اور ایک حقیقت کی وضاحت کے لئے ضروری تھا کہ اس کا کوئی نام رکھا جائے جیسا کہ دوسری طاقتوں اور قوتوں کے نام رکھے گئے ہیں اور ان میں سے جو طاقت اور قوت دریافت ہوتی ہے اس کا ایک نام قرار پا جاتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ دنیا کی جتنی اشیاء ہیں سب کے ناموں کی شناخت اور پہچان اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ودیعت کردی ہے اسی لئے جب بھی اس کا اظہار ہوگا تو اس کا فاعل حقیقی وہی اللہ تعالیٰ قرار پائے گا انسان کا کمال محض یہ ہے کہ اس نے اس کو دریافت کیا ہے اور اس لئے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں دریافت کرنے کی صلاحیت ودیعت کردی ہوئی ہے۔ زیر نظر آیت میں (علمہ) کی ضمیر تو بالاتفاق محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف راجع ہے لیکن اس کا فاعل کون ہے ؟ اس میں زیادہ تر مفسرین نے جس کا اظہار کیا ہے وہ یہی ہے کہ وہ فرشتہ جبریل ہے جس کو (شدید القوی) کا لقب دیا گیا ہے۔ لیکن مخلوق میں سے کسی کی صفت (شدید القوی) ہو اس سے زیادہ بہتر اور دل کو لگتی بات خود ذات رب ذوالجلال والا کرام ہی کی ہے کہ وہ زبردست قوتوں کا مالک حقیقی ہے جس نے جبریل جیسی صاحب قوت شخصیت کو پیدا کردیا ہے پھر یہ بھی کہ ایک بندے اور بندے کی ملاقات کے ذکر کے لئے اس قدر بلندیوں میں لے جا کر کیا جائے جب کہ اس کا نزول ایک مدت دراز تک پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ اسی فرشتہ کی اصل شکل و صورت دکھانے کا ذکر ہے تو اس کے متعلق ہم اپنا نظریہ پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ان طاقتوں اور قوتوں کی اپنی اصل شکل ہوتی ہی کیا ہے ؟ وہ تو متشکل ہونے ہی سے نظر آتی ہے جیسا کہ ہم ہوا کی مثال سے اوپر اس کی وضاحت کرچکے ہیں اس لئے ہم تو یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ جو زبردست قوتوں والا دانا و بینا ہے اس نے اپنے بندہ محمد رسول اللہ ﷺ کو قرآن کریم کی تعلیم دی اس کی وضاحت خود قرآن کریم نے دوسری جگہ اس طرح کردی کہ (الرحمن ‘ علم القرآن) ” رحمن نے اس قرآن کریم کی تعلیم دی ہے “۔ (55 : 1 ‘ 2) (الذی علیم بالقلم ‘ علم الانسان مالم یعلم ) (96 : ‘ 4 ‘ 5) ” وہ ذات جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا ‘ انسان کے اندر صلاحیتیں رکھنے والا وہ خود اللہ رب کریم ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے یہ تعلیم دی ہے کہ اپنے لکھنے پڑھنے کی نسبت بھی اسی اللہ رب ذوالجلال والا کرام ہی کی طرف کی جائے جس نے انسان کے اندر اس طرح کی قوتیں ودیعت کی ہیں پھر تعجب ہے کہ جب نبی اعظم و آخر ﷺ کے تعلیم حاصل کرنے کا ذکر آئے تو اس کی نسبت ایک مخلوق کی طرف کردی جائے حالانکہ نبوت و رسالت کی صلاحیتیں بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کی ودیعت ہوا کرتی تھیں کسی انسان کی تربیت وتعلیم سے تو یہ عہدہ مل ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ وہبی اور عطائی چیز تھی نہ کہ کسی اور کمائی ہوئی۔ ہمیں تعجب ہے کہ مفسرین کی اکثریت نے اگر ایسا کہا ہے تو کیا کثرت کو مزید کثرت دینا لازم و ضروری ہے یا قرآن کریم کی حقیقی روح تک پہنچنا زیادہ ضروری ہے ؟ غور کرو کہ آلات کی انسان کو کتنی ضرورت ہے لیکن اگر کہیں آلات اور انسان کا مقابلہ شروع ہوجائے تو اہمیت کس کو دی جائے گی ؟ ظاہر ہے کہ انسان کو کیونکہ انسان کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو آلات خود بخود بیکار ہوجاتے ہیں اور ان کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ غور کرو کہ نبوت و رسالت ایک اتنا بڑا اعزاز ہے کہ جبریل اس کے لئے آلہ کا کام دیتا ہے اور آلہ کتنا ہی قیمتی اور کتنا ہی طاقت و قوت والا ہو بہرحال آلہ ہے نبوت کے سامنے اور رسالت کے سامنے وہ کیا چیز ہے ؟ یہ بیان مسلسل اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس اور اللہ کے بندے محمد رسول اللہ ﷺ کے درمیان ہے اور جبریل ہیں تو وہ محض ایلچی اور خادم کی حیثیت سے ساتھ ہیں۔ رہی یہ بات کہ اللہ رب کریم اور بندہ کے درمیان کوئی فاصلہ ہی کب ہے کہ اس کے لئے کوئی سفر درپیش ہو ؟ لاریب انسان اور اللہ کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں اور یہی بات اس میں تفہیم کرائی گئی ہے کہ آسمان و زمین کی ہرچیز کا مشاہدہ بھی کرایا گیا اور جگہ بھی نہیں بدلی گئی گویا یہ ایک ایسا سفر تھا جس میں اصل جسم تو وہیں کا وہیں رہا اور مثالی جسم نے روح کا وہ ساتھ دیا جو اصل جسم دیتا ہے اور اصل جسم سے کوئی بات پوشیدہ بھی نہیں رہی اور یہ رب ذوالجلال والا کرام کی اسی معیت ہی کے باعث ہوا جو انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے اگر وہ قریب نہ ہوتا تو یہ ملکوت السموات والارض کی سیر کیونکر ممکن ہوتی۔ غور کرو کہ آپ ﷺ اس جگہ موجود رہے جہاں آپ ﷺ آرام کرنے کی خاطر لیٹے تھے اور حالت بیداری اور قوم کے درمیان یہ ساری سیر بھی کی گئی اور زندگی کا پورا پروگرام بھی آپ ﷺ کو پیش کردیا گیا اور اعمال کے نتائج بھی آپ ﷺ کو مشاہدہ کرا دیئے گئے اور عالم دنیا اور عالم آخرت کا ایک پر تو آپ ﷺ کے سامنے پیش کردیا گیا اور اس وسیع پروگرام کے مشاہدہ کے لئے وہ مقام ہونا ہی چاہئے تھا جس کا ذکر آگے آ رہا ہے اور اس میں یاد رکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ جو کچھ ہوا وہ بین النوم والبقضان ہوا اور اس کی برق رفتاری کی طرف ” براق “ نے اشارہ کردیا۔ اس کی وضاحت میں جو احادیث آئی ہیں ان میں اس کا ذکر اول تا آخر موجود ہے۔
Top