Madarik-ut-Tanzil - Al-Hujuraat : 5
وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ صَبَرُوْا : صبر کرتے حَتّٰى : یہاں تک کہ تَخْرُجَ : آپ نکل آتے اِلَيْهِمْ : ان کے پاس لَكَانَ : البتہ ہوگا خَيْرًا : بہتر لَّهُمْ ۭ : ان کے لئے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور اگر وہ صبر کئے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس آتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے
صبر کا مفہوم : آیت 5 : وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا (اور اگر یہ لوگ صبر کرتے) یعنی اگر ان کا صبر قائم رہتا۔ یہ محل رفع میں فاعلیت کی بناء پر واقع ہے۔ الصبر : نفس کی خواہش کو روک کر رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا۔ واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم۔ ] الکہف : 28[ اور عرب کا قول صبر عن کذا۔ اس سے نفس کو جو کہ مفعول ہے حذف کیا گیا ہے۔ مشہور محاورہ ہے۔ الصبر مرّ لا یتجرّعہ الاحرٌ۔ صبر تلخ است مگر بر شیریں دارد۔ حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْہِمْ (یہاں تک کہ آپ خود ان کے پاس باہر آجاتے) لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ (تو ان کے لئے بہتر تھا) اس سے یہ فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ اگر آپ باہر تشریف لاتے اور آپ کا نکلنا ان کی طرف اور ان کی خاطر نہ ہوتا تو پھر بھی لازم تھا کہ وہ اس وقت تک صبر کرتے یہاں تک کہ ان کو علم ہوجاتا کہ آپ کا نکلنا ان کی طرف ہے۔ تو صبر ان کے لئے دینی لحاظ سے بہتر ہوا۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے) اللہ تعالیٰ بہت وسیع مغفرت و رحمت والا ہے۔ ان لوگوں سے بھی وہ اپنی رحمت کو ہرگز تنگ نہ کریں گے اگر یہ توبہ وانابت سے کام لیں گے۔
Top