Madarik-ut-Tanzil - Adh-Dhaariyat : 29
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ
فَاَقْبَلَتِ : پھر آگے آئی امْرَاَتُهٗ : اس کی بیوی فِيْ صَرَّةٍ : حیرت سے بولتی ہوئی فَصَكَّتْ : اس نے ہاتھ مارا وَجْهَهَا : اپنا چہرہ وَقَالَتْ : اور بولی عَجُوْزٌ : بڑھیا عَقِيْمٌ : بانجھ
تو ابراہیم کی بیوی چلاتی آئی اور اپنا منہ پیٹ کر کہنے لگی (اے ہے ایک تو) بڑھیا اور (دوسرے) بانجھ
آیت 29 : فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗٗ فِیْ صَرَّۃٍ (اتنے میں ان کی بی بی بولتی پکارتی آئیں) صرّۃ : زور سے بولنا۔ یہ صرالقلم والباب سے ہے۔ قول الزجاج : یہاں زور سے چیخنا مراد ہے۔ حال کی وجہ سے محلاً منصوب ہے۔ ای جاءت صارۃً فاخذت فی صیاح : لگی زور سے بولنے چیخنے۔ اور اس کی آواز اس کا یہ قول تھا۔ یا ویلتا۔ فَصَکَّتْ وَجْہَہَا (پھر ماتھے پر ہاتھ مارا) پس اس نے اپنے دونوں ہاتھ کھول کر چہرے پر مارے۔ ایک قول یہ ہے : اپنی انگلیوں کے اطراف اپنی پیشانی پر مارے جیسے کوئی تعجب والا کرتا ہے۔ وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ (اور کہنے لگیں بڑھیا بانجھ) یعنی انا عجوز میں بانجھ ہوں پس کیسے میں جنوں گی ؟ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایاء الد وانا عجوز وہذا بعلی شیخًا۔] ہود۔ 72[
Top