Madarik-ut-Tanzil - Al-An'aam : 23
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَمْ تَكُنْ : نہ ہوگی۔ نہ رہی فِتْنَتُهُمْ : ان کی شرارت اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ قَالُوْا : وہ کہیں وَاللّٰهِ : قسم اللہ کی رَبِّنَا : ہمارا رب مَا كُنَّا : نہ تھے ہم مُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والے
تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا (اور) بجز اسکے (کچھ چارہ نہ ہوگا) کہ کہیں خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے۔
کفر کا بےوقت انکار : آیت 23 : ثُمَّ لَمْ تَکُنْ : قراءت : حمزہ اور علی نے یکن یا سے پڑھا ہے۔ فِتْنَتُہُمْان کا کفرالَّآ اَنْ قَالُوْا وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَیعنی پھر ان کے اس کفر کا انجام جس کو انہوں نے ساری عمر لازم پکڑا اور اس پر لڑائیاں کیں اور بیزاری ہوگی اور اس کو اختیار کرنے کی نفی ہوگی۔ پھر ان کا یہ جواب ہوگا (واللّٰہ ربنا ماکنا مشرکین) پس اس جواب کو فتنہ اس لیے کہا گیا کیونکہ وہ جھوٹ ہے۔ قراءت : الفتنۃ کو مکی نے مرفوع پڑھا ہے اور اسی طرح شامی اور حفص نے بھی۔ جن قراء نے تکن تاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور فتنہ کو رفع دیا۔ تو انہوں نے اس کو لم تکن کا اسم قرار دیا۔ اور ان قالوا کو خبر۔ مطلب یہ ہوا کہ ان کی آزمائش ان کی یہ بات ہوگی۔ جن قراء نے تاء سے پڑھا ہے لیکن الفتنۃ کو منصوب پڑھا تو انہوں نے فتنہ کو مقولہ قرار دیا۔ حمزہ اور علی نے ندا کی وجہ سے ربنا کو منصوب پڑھا ہے۔ یا ربَّنا۔ دوسرے قراء نے اللہ تعالیٰ کے اسم کی صفت قرار دیکر مجرور پڑھا ہے۔
Top