Madarik-ut-Tanzil - Al-Qalam : 44
فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ١ؕ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
فَذَرْنِيْ : پس چھوڑدو مجھ کو وَمَنْ يُّكَذِّبُ : اور جو کوئی جھٹلاتا ہے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : عنقریب ہم آہستہ آہستہ کھینچیں گے ان کو مِّنْ حَيْثُ : جہاں سے لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے نہ ہوں گے
تو مجھ کو اس کلام کے جھٹلانے والوں کو سمجھ لینے دو ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسے طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی .
44 : فَذَرْنِیْ (پس رہنے دو مجھ کو) عرب کے لوگ ذرنی وایاہ بولتے ہیں۔ مطلب یہ ہوتا ہے اس کو میرے حوالے کرو میں اس سے نپٹ لوں گا۔ وَمَنْ یُّکَذِّبُ (اور اس کو جو جھٹلاتے ہیں) اس کا مفعول پر عطف ہے یا یہ مفعول معہ ہے۔ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ (اس کلام کو) مراد قرآن مجید ہے۔ مقصد یہ ہے اس کا معاملہ میرے اوپر چھوڑ دو ۔ میں اس کو جانتا ہیں جو کچھ اس کے ساتھ کرنا ہے اور اس کی طاقت رکھتا ہوں آپ اس کی وجہ سے اپنے دل کو پریشان مت کریں اور انتقام میں مجھ پر توکل کریں۔ اس میں مکذبین کو تہدید کی گئی اور آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے۔ استدراج کی حالت : سَنَسْتَدْرِجُھُمْ (ہم ان کو بتدریج لئے جارہے ہیں) درجہ بدرجہ ان کو عذاب سے قریب کر رہے ہیں۔ عرب کہتے ہیں۔ استدرجہ الی کذا۔ اس کو درجہ بدرجہ اتارا یہاں تک کہ اس کو اس میں گم کردیا۔ استدارج الٰہی نافرمانوں کے متعلق یہ ہے کہ ان کو صحت ونعمت دیتا چلا جاتا ہے۔ وہ اس رزق کو معاصی کے بڑھانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ مِّنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُوْنَ (اس طور پر کہ انکو خبر بھی نہیں) ایسی جہت سے کہ ان کو شعور بھی نہیں کہ یہ استدراج ہے۔ ایک قول یہ ہے جب وہ نئی نافرمانی کرتا ہے ہم ان کو تازہ نعمت دے دیتے ہیں اور ان کا شکر یہ بھلا دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جب تم لوگوں کو دیکھو کہ کسی بندے پر انعام کرتا ہے اور ادھر وہ معصیت پر قائم ہے تو یقین کرلو کہ وہ استدراج کا شکار ہے ] دیلمی فی مسند الفردوس : 1073[ اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔
Top