Madarik-ut-Tanzil - An-Naba : 40
اِنَّاۤ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا١ۖۚ۬ یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ وَ یَقُوْلُ الْكٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ تُرٰبًا۠   ۧ
اِنَّآ اَنْذَرْنٰكُمْ : بیشک ہم نے، خبردار کیا ہم نے تم کو عَذَابًا قَرِيْبًا ڄ : قریبی عذاب سے يَّوْمَ يَنْظُرُ : جس دن دیکھے گا الْمَرْءُ : انسان مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ : جو آگے بھیجا اس کے دونوں ہاتھوں نے وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ : اور کہے گا کافر يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش کہ میں كُنْتُ تُرٰبًا : میں ہوتا مٹی/خاک
ہم نے تم کو عذاب سے جو عنقریب آنیوالا ہے آگاہ کردیا۔ جس دن ہر شخص ان (اعمال) کو جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کہ کاش ! میں مٹی ہوتا
40 : اِنَّآ اَنْذَرْ نٰکُمْ (ہم نے تم کو ڈرایا ہے) اے کافرو ! عَذَابًا قَرِیْبًا (ایک نزدیک آنے والے عذاب سے) جو آخرت میں پیش آئے گا کیونکہ جو آنے والا ہے وہ قریب ہی ہے۔ یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ (جس دن ہر شخص ان اعمال کو دیکھ لے گا) المرء سے کافر مراد ہے۔ جیسا کہ انا انذرناکم عذابا قریبا اس پر دلالت کررہا ہے۔ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ (جو اس نے اپنے ہاتھوں سے کیے ہونگے) برائیاں۔ جیسا دوسرے مقام میں فرمایا۔ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْکُمْ ] آل عمران : 181۔ 182[ وجہ تخصیص : ایدیکو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر اعمال ہاتھوں سے انجام پاتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی احتمال ہے کہ بعض گناہوں میں ہاتھوں کا کوئی دخل بھی نہ ہو۔ وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ (اور کافر کہے گا) یہاں ضمیر کی بجائے کافر کا لفظ ظاہرلائے تاکہ اس کی خوب مذمت ہوجائے۔ نمبر 2۔ المرءؔ عام ہے اور اس میں سے کافر کو خاص کیا گیا۔ اور ماقدمت یداہ سے جوا عمال اس نے خیر و شر کیے وہ تمام مراد ہیں۔ نمبر 3۔ المرءؔ سے مراد مومن ہے کیونکہ کافر کا بعد میں ذکر آرہا ہے۔ اور ماقدمت یداہ سے وہ اعمال خیر مراد ہیں جو اس نے کیے۔ کافر کی تمنا : نحو : مااستفہامیہ ہے قدمت کی وجہ سے منصوب ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے ینظر ای شیٔ قدمت یداہٗ وہ دیکھے گا کہ اس نے کیا کما کر آگے بھیجا ہے۔ نمبر 2۔ ماؔ موصولہ ہے۔ اور ینظر کی وجہ سے منصوب ہے۔ عرب کہتے ہیں نظرتہ ای نظرت الیہ اور صلہ کی ضمیرکامرجع محذوف ہوگا۔ ای قَدَّمْتُہٗ ۔ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا (کاش میں مٹی ہوجاتا) دنیا میں مٹی ہوتا نہ میں پیدا کیا جاتا اور نہ مکلف بنایا جاتا نمبر 2۔ کاش آج میں مٹی ہوجاتا اور اٹھایا نہ جاتا۔ ایک قول یہ ہے اللہ تعالیٰ حیوانات غیر مکلف کو اٹھائے گا یہاں تک کہ سینگ والی سے بےسینگ کا قصاص لیا جائے گا۔ پھر ان کو مٹی کردیا جائے گا پس اس وقت کافر ان جانوروں کے انجام کی تمنا کرے گا۔ ایک قول : یہ ہے کافرؔ سے مراد ابلیس ہے وہ تمنا کرے گا۔ کہ وہ بھی آدم کی طرح مٹی سے بنا ہوتا۔ تاکہ اس کو اپنی اولاد مؤمنین کے ثواب میں حصہ مل جاتا۔
Top