Madarik-ut-Tanzil - Al-Ghaashiya : 20
وَ اِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْٙ
وَاِلَى الْاَرْضِ : اور زمین کی طرف كَيْفَ : کیسے سُطِحَتْ : بچھائی گئی
اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی
20 : وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ (اور زمین کو کیسے بچھائی گئی) اس کی سطح ہموار اور بچھی ہوئی ہے۔ تمام ایک بچھونا ہے جو ایک کنارئہ آسمان سے دوسرے کنارئہ آسمانی تک پھیلا ہے اسی طرح جنت کے قالین ہونگے۔ ایک اور انداز : یہ بھی درست ہے کہ معنی یہ ہو۔ کیا وہ ان مخلوقات کو نہیں دیکھتے ہیں جو قدرت الٰہی پر شاہد ہیں۔ تاکہ وہ بعث بعد الموت پر اس کی قدرت کا انکار نہ کریں۔ اورحضور ﷺ کا انذار سن کر آپ پر ایمان لائیں اور اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے تیاری کریں۔ وجہ تخصیص : ان چار چیزوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب کو خطاب فرما کر ان کو ان قدرتی چیزوں سے استدلال کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے۔ اور آدمی اس سے استدلال کرتے ہیں۔ جو اکثر و بیشتر مشاہدہ میں آتی رہتی ہوں۔ عام عربوں کی بود و باش جنگلوں میں تھی ان کی نگاہ کے سامنے ہر وقت آسمان زمین پہاڑ رہتے تھے۔ اور ان کا محبوب ترین مال اونٹ۔ اور سواری میں اس کا استعمال تمام حیوانات کی بنسبت زیادہ تھا۔ کیونکہ اس میں حیوانات کی جملہ حاجات موجود تھیں۔ مثلاً نسل، دودھ، بوجھ اٹھانا، سواری کھانے کے کام آنا وغیرہ۔ اس کے برخلاف دیگر حیوانات میں یہ تمام مجتمع نہ تھیں اور اس کو مطیع اس طرح بنایا گیا کہ ہر نکیل پکڑنے والا اس کو لے کر چلتا ہے۔ نہ کمزور کو دشواری نہ بچے کو رکاوٹ لمبی گردن والا بوجھ اٹھانے والا ہے۔ اس کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ بیٹھ جاتا ہے تاکہ آسانی اور قریب سے اس پر بوجھ لاد سکیں پھر بوجھ لے کر اٹھ جاتا ہے اس کو دور دراز علاقوں تک لے جاتا ہے اور پیاس کو بہت برداشت کرنے والا یہانتک کہ دس دن یا اس سے زیادہ پیاس برداشت کرلیتا ہے۔ جنگلوں میں اگنے والی ہر چیز کھالیتا ہے جس کو دیگر حیوانات نہیں چرتے۔
Top