Madarik-ut-Tanzil - At-Tawba : 37
اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰهُ١ؕ زُیِّنَ لَهُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۠   ۧ
اِنَّمَا : یہ جو النَّسِيْٓءُ : مہینے کا ہٹا دینا زِيَادَةٌ : اضافہ فِي الْكُفْرِ : کفر میں يُضَلُّ : گمراہ ہوتے ہیں بِهِ : اس میں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) يُحِلُّوْنَهٗ : وہ اس کو حلال کرتے ہیں عَامًا : ایک سال وَّيُحَرِّمُوْنَهٗ : اور اسے حرام کرلیتے ہیں عَامًا : ایک سال لِّيُوَاطِئُوْا : تاکہ وہ پوری کرلیں عِدَّةَ : گنتی مَا : جو حَرَّمَ : حرام کیا اللّٰهُ : اللہ فَيُحِلُّوْا : تو وہ حلال کرتے ہیں مَا حَرَّمَ : جو حرام کیا اللّٰهُ : اللہ زُيِّنَ : مزین کردئیے گئے لَهُمْ : انہیں سُوْٓءُ : برے اَعْمَالِهِمْ : ان کے اعمال وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کردینا کفر میں اضافہ (کرتا) ہے۔ اس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں۔ ایک سال تو اسکو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام۔ تاکہ ادب کے مہینوں کی جو خدا نے مقرر کیئے ہیں گنتی پوری کرلیں اور جو خدا نے منع کیا ہے اس کو جائز کرلیں۔ انکے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں اور خدا کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
رسم نسی کی تردید : آیت 37: اِنَّمَا النَّسِیْئُ (بےشک مؤخر کردینا) یہ ہمزہ کے ساتھ نسأہ کا مصدر ہے۔ مؤخر کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں نسیء کا معنی ہے ان کے ہاں مہینہ کی حرمت کو دوسرے مہینے میں مؤخر کردینا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوٹ مار اور لڑائی بھڑائی والے لوگ تھے۔ جب حرمت والے مہینے آجاتے اور وہ لڑائی میں مصروف ہوتے تو لڑائی کا اسی حالت میں چھوڑنا ان پر گراں گزرتا پس اس مہینے کو لڑائی کیلئے حلال کرلیتے اور دوسرا مہینہ اس کی جگہ حرام کرلیتے۔ یہاں تک کہ اشھرحرم کی حرمت کے ساتھ تخصیص کا بھی انکار کردیتے۔ پھر وہ سال میں مطلق چار مہینوں کو حرام قرار دیکر گنتی مکمل کرتے۔ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ (کفر میں ترقی ہے) انکا یہ فعل کفر میں ایک اور اضافہ تھا۔ یُضَلُّ (گمراہ کئے جاتے ہیں) ابوبکر کے علاوہ دوسرے کو فی قراء نے پڑھا ہے۔ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا (جس سے کافر) نسیء کے ذریعہ اور یُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا (وہ اس حرام مہینے کو کسی سال حلال کرلیتے ہیں اور کسی سال حرام سمجھتے ہیں) میں ضمیر نسیء کی طرف راجع ہے یعنی جب وہ ایک مہینے کو اشھر حرام میں سے حلال کرلیتے تو اگلے سال رجوع کر کے دوبارہ اس کو حرام کردیتے۔ لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّۃَمَاحَرَّمَ اللّٰہُ (تاکہ اللہ تعالیٰ نے جو مہینے حرام کئے ہیں ان کی گنتی پوری کرلیں) تاکہ وہ اس گنتی کی موافقت ثابت کریں اور وہ چار مہینے ہیں وہ اس کی مخالفت نہ کرتے تھے البتہ اس تخصیص کے مخالف تھے جو کہ واجبات میں سے ایک ہے اور لام یحلونہ ویحرمونہ سے متعلق ہے یا یحرمونہ کافی ہے اور یہ ظاہر ہے۔ فَیُحِلُّوْا مَاحَرَّ مَ اللّٰہُ (پھر اللہ کے حرام کئے ہوئے مہینے کو حلال کرلیتے ہیں) یعنی فیحلوا بمواطأۃ العدۃ وحد ھا من غیرتخصیص ماحرم اللہ من القتال وہ گنتی کی موافقت کیلئے بغیر تخصیص کے اس چیز کو حلال کرلیں۔ جو قتال اللہ تعالیٰ نے حرام کیا۔ نمبر 2۔ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام کیں یعنی مہینہ کو معین طور پر حرام کرنا اس کو انہوں نے حلال کرلیا اور اس کی تخصیص ختم کردی۔ زُیِّنَ لَھُمْ سُوْٓئُ اَعْمَالِھِمْ (ان کی بداعمالیاں ان کی نظر میں مرغوب معلوم ہوتی ہیں) شیطان نے ان کے لئے یہ مزین کیا کہ برے اعمال کو انہوں نے اچھا سمجھا۔ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ (اور اللہ تعالیٰ اس سے کافروں کو ہدایت نہیں دیتے) جب تک وہ باطل پر پختگی اختیار کرنے والے ہیں۔
Top